عمران خان، خدا را ملک پر رحم کریں

پی ٹی آئی کے چیئرمین الزام خان ان دنوں غیروں کے اشاروںپر ناچتے ہوئے مختلف شہروں میں دندناتے پھرتے ہیں۔ سنجیدہ‘ باشعور اور وطن سے محبت کرنے والے اذہان سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر ایسی کیا مصیبت آن پڑی ہے کہ الزام خان ہر سیاسی جماعت کے قائد کے خلاف گلا پھاڑ پھاڑ کر دشنام طرازی اور فحش کلامی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملکی‘ غیرملکی اداروں اور تجزیہ کاروں سمیت ایک زمانے نے اعتراف کیا ہے کہ گیارہ مئی2013ء کے انتخابات بڑی حد تک شفاف تھے۔ ادارہ جاتی دھاندلی نہیں ہوئی‘ اکا دکا سیٹوں پر اگر کہیں کوئی بدمزگی ہوئی ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ایسا ماضی میں اکثر ہر انتخابات میں ہوتا آیا ہے مگر الزام خان ہیں کہ ان کا ’’میں نہ مانوں‘ میں نہ مانوں‘‘ کا وظیفہ ہی ختم ہونے میں نہیں آتا۔ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بیانگ دہل جمہوریت کا ساتھ دینے کا عہد کیا ہے اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور سنجیدہ فکر لوگوں نے بھی الزام خان کی ’’لغویات‘‘ پر کان نہیں دھرا۔ حکومت انتخابی وعدوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سمیت اشیائے صرف کے نرخوں میں ریکارڈ کمی کر چکی ہے جس کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت میں تقریباً سوا دو روپے فی یونٹ کمی ہونے جا رہی ہے۔ غیرعلانیہ لوڈشیڈنگ کا قریب قریب خاتمہ ہو چکا ہے۔ توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے ہائیڈل‘ تھرکول‘ تھرمل‘ سولر پاور پراجیکٹ تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے دنیا بھر کے تاجروں کو ترغیبات دی جا رہی ہیں مگر اندرون ملک سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا کی جا رہی ہے جو کسی صورت قرین عقل و دانش نہیں۔ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملک میں سیاسی جماعتوں میں چپقلش ایک حد سے بڑھی‘ اس کا فائدہ ہمیشہ تیسری قوت نے اٹھایا۔ جمہوریت ایک لمبے عرصے تک پابند سلاسل رہی۔ ملک میں آمریت کا دور دورہ ہے جبکہ نتیجہ میں ہمیشہ انارکی اور علیحدگی پسند تحریکوں نے جنم لیا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ان دنوں وطن عزیز کو درپیش ہے۔ نادیدہ طاقتیں ہمارے ایٹمی اثاثوں پر ایک عرصے سے نظریں گاڑھے بیٹھی ہیں۔ کبھی طالبان کے ہاتھوں ارض پاکستان کے کونے کونے میں کوچہ و بازار کو لہو لہو کیا گیا تو کبھی اپنوں کے ہاتھوں اپنوں ہی کے گلے کاٹے جاتے رہے۔ خان صاحب! خدارا دوسروں کے ہاتھوں کھلونا بن کر پاکستان کو دنیا میں تماشا نہ بنائیں‘ صوبہ خیبر پی کے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکومت کرنے کا موقع دیا ہے‘ اس سے فائدہ اٹھایئے۔ وہاں کے عوام کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے صوبہ خیبر پی کے کو نیا صوبہ بنا کر دکھائیں۔ وہاں کے عوام نے آپ کو اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے مینڈیٹ دیا تھا۔ بدقسمتی سے آپ نے کامیابی کے بعد ان کو بے یارومددگار حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ کیا ہی اچھا ہو کہ مرکزی حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے اور ملکی تعمیروترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے صوبہ خیبر پی کے کومسائل کی دلدل سے نجات دلائیں تاکہ آنے والے انتخابات میںآپ عوام کی نظر میں سرخر و ہوسکیں۔اب مفید مشورہ کہ اپنے بے ہنگم جلوسوں پر اترانا چھوڑ دیں۔ یہ جلسے کبھی اصغرخان اور آپ کے سیاسی کزن طاہرالقادری کے بھی بڑے ہوتے تھے۔ انتخابات میں ان کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے جو یقینا باعث عبرت ہے۔ عوام میاں نوازشریف کو اپنا مسیحا مان کر ان کے پیچھے کھڑے ہیں کہ ملک ان کی قیادت میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ ہمارا عظیم ہمسایہ دوست چین ارض پاکستان میں 45 ارب ڈالر کی ریکارڈ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ امریکہ قطر‘ جرمنی‘ روس سمیت دیگر ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدے ایک حکومتی کریڈیبلٹی اور کامیاب سفارتکاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ خان صاحب! عالمی مسابقت بازی پر دھیان دیتے ہوئے نوجوانوں کو باہم اور حکومت سے دست و گریبان کرنے کے بجائے ان کی ذہنی آبیاری کریں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی افادیت کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کریں نہیں تو خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کے عہد حکومت میں اپنی تکمیل تک پہنچنے والے ترقیاتی منصوبوں کی سنجیدگی سے سٹڈی کریں اور دیکھیں کہ گزشتہ برسوں میں صوبے نے کتنی تیزی سے ترقی کی ہے جبکہ آپ کے صوبہ خیبر پی کے کے وزیراعلیٰ کنٹینر پر آپ کا ’’دم چھلا‘‘ بنے اور خٹک ڈانس کرکے لوگوں کا دل بہلانے کا شعل فرماتے رہے۔ خدارا اپنے صوبے کے معاملات سنبھالنے کی طرف توجہ دینے کیلئے آزاد کر دیں۔ لوگوں نے آپ سے جو توقعات وابستہ کر لی ہیں‘ ان پر پورا اترنے کیلئے ٹھنڈے دل سے اپنی ادائوں اور طور طریقوں پر بھی غور کرنے کی بھی زحمت گوارا کر لیں کہ آپ کی یہ احتجاجی سیاست ملک و قوم کو کہاں لے جائے گی اور آپ کے بیانات اور مولاجٹ ٹائپ تقریریں دلوں میں جو نفرت اور قدورتوں کے بیج بو رہی ہیں‘ اس کی فصل آخر کس کو کاٹنا ہوگی کہ ہم جو عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ وطن عزیز اس وقت جن مسائل کا شکار ہے‘ ان کے پیش نظر ملک میں امن و امان‘ باہمی احترام اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تلقین کرنے کی ضرورت ہے۔ افواج پاکستان ایک طرف مشرقی سرحدوں‘ افغانستان کی سرحد اور ضرب عضب میں مصروف ہے۔ ان حالات میں عوام کو متحد ہوکر فوج کے شانہ بشانہ ہونا چاہئے۔ اس لئے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ وطن عزیز کی سالمیت‘ معاشی ترقی کیلئے دھرنا اور احتجاجی سیاست ختم ہونی چاہئے۔ ہمارے باہمی اختلافات سے دشمنوں کو ہمارے خلاف سازشوں کیلئے شہہ ملتی ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارتی افواج کی بلااشتعال فائرنگ اس کی مثال ہے۔ موجودہ وقت سیاست سیاست کھیلنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے مل جل کر ملکی دفاع اور ترقی کیلئے قدم بڑھانے کا ہے۔

ای پیپر دی نیشن