وہ ایک ماہر تعلیم اور مورخ تھا، لیکن سب یار دوست اُسے کتابی کیڑا کہتے تھے۔ اس نے صرف پڑھا اور پڑھایا ہی نہیں بلکہ لکھا بھی بہت اور اسی کام کی وجہ سے بھارت سرکار نے اُسے پدم شری ایوارڈ کا مستحق بھی سمجھا۔ مطالعہ اُس کی عادت سے کہیں زیادہ اس کی بیماری سمجھی جاتی تھی، جس کا اُس نے کبھی علاج کرانے کی کوشش بھی نہ کی۔ اُسے جہاں لائبریری ملتی وہ وہاں گھس جاتا اور گھنٹوں کتابیں کھنگالتا رہتا۔ وہ صرف مطالعہ ہی نہ کرتا تھا، بلکہ جہاں بھی اُسے دوران مطالعہ عقل و خرد اور منطق و دلیل کے منافی کوئی جملہ، کوئی تحریر یا کوئی کتاب مل جاتی، وہ اس پر تحقیق شروع کردیتا۔ اینگلو بنگالی کالج الہ آباد کی لائبریری میں تاریخ کی ایک کتاب کے مطالعے کے دوران بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یہ کتاب ایک اور بھارتی مصنف ، ’’محقق‘‘او رکلکتہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ سنسکرت ڈاکٹر ہرپرشاد شاستری کی تصنیف تھی۔ یہ کتاب پڑھ کر وہ چکراکر رہ گیا۔اِس کتاب میں ٹیپو سلطان (1750-1799) کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’’فتح علی ٹیپو نے 3000برہمنوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے ان تمام برہمنوں نے اجتماعی خود کشی کرلی‘‘۔ ایسا گھناؤنا الزام اور وہ بھی شیر میسور کے نام پر! بڑی اچنبھے کی بات تھی۔ ساری دنیا جانتی تھی کہ سلطان ٹیپو نے زندگی بھر کبھی ذات پات کا فرق نہ کیا، ٹیپو کی فوج کا سپہ سالار اعظم اور وزیراعظم تک ہندو برہمن تھے۔ اس کے حوالے سے ٹیپو کی سلطنت کے 136 ہندو مندروں کی فہرست آج بھی موجود ہے، جنہیں شاہی خزانے سے سالانہ امداد ملتی تھی۔ ایسے میں ڈاکٹر شاستری کی یہ کتاب پڑھ کر وہ کتابی کیڑا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔سادہ لوح ذہنوں کیلئے یہ زہر آلود کتاب آسام، بنگال،بہار، اترپردیش، اڑیسہ ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے ہائی اسکولوں میں پڑھائی جارہی تھی۔ اُس نے جب اِس جانب توجہ دلائی تو کلکتہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اشوتوش چودھری نے اس کتاب کو کورس سے خارج کرادیا۔کچھ عرصہ بعد وہ اُتر پردیش کے ایک اسکول کی لائبریری میں گیا تو یہ جان کر حیران رہ گیا کلکتہ یونیورسٹی سے خارج کیے جانے کے باوجود وہ کتاب ثانوی سطح پر پڑھائی جارہی تھی، اس کے بعد تو یہ معمول بن گیا کہ وہ ایک جگہ سے کتاب ختم کراتا تو وہی کتاب کسی دوسری جگہ پڑھائی جانے لگتی۔ وہ جب تک زندہ رہا،اس نیک کام میں جتا رہا، اس نے اس جانب اور زیادہ توجہ دی تو حیران رہ گیا کہ ہندوستان کے معصوم ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنے والی یہ صرف ایک کتاب نہ تھی کہ بلکہ ایسی ہزاروں کتابیں موجود تھیں اور نوجوان نسل کو پڑھائی جارہی تھیں، عمر بھر سچ کی تلاش کیلئے مصروف عمل رہنے والا یہ کتابی کیڑا کوئی اور نہیں بلکہ ایک ہندو محقق اور ریاست اڑیسہ کا سابق گورنر ڈاکٹر شمبھو ناتھ پانڈے تھا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے جتنے بھی اصل ہیرو تھے،1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ان کا امیج دھندلانے کیلئے ایک منصوبے کے تحت کام شروع کردیا گیا تھا ۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے سب سے جاہ حشم مسلمان بادشاہ اورنگزیب عالمگیر پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ ’’وہ ایک ظالم و جابر بادشاہ، غیر مسلموں سے تعصب رکھنے والے اور بنیاد پرست مسلمان حکمران تھا‘‘۔ ان سنگین غلط فہمیوں پر بھی ڈاکٹر شمبھو ناتھ پانڈے نے تحقیق انجام دی۔ ڈاکٹر پانڈے 1948-1953 کے دوران بحیثیت میونسپل چیرمین الہ آباد رہے، اِس دوران دو مندروں کے پجاریوں کے درمیان اراضی سے متعلق جھگڑا پیش آیا۔ جن میں سے ایک پجاری نے حقائق کے طور پر شاہی احکامات جو اورنگ زیب کے دور میں جاری کیے گئے تھے، پیش کیے۔ ڈاکٹر پانڈے نے اِن شاہی احکامات کی صداقت کی جانچ کے لیے اپنے ایک برہمن دوست سرتیج بہادر سپرو کو کہا جو قانون دان ہونے کے علاوہ عربی و فارسی سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ سرتیج بہادر نے شاہی احکامات کے فرامین کی جانچ کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ یہ اورنگ زیب کی جانب سے جاری کردہ شاہی حکم ہی تھا۔ان فرامین کو پڑھ کر ڈاکٹرپانڈے کے لیے اورنگ زیب کی ایک نئی تصویراجاگر ہوئی۔ ڈاکٹر پانڈے نے ہندوستان کے اہم مندروں کے پجاریوں کوخطوط لکھے کہ اورنگ زیب کی جانب سے جاری کردہ شاہی فرامین اگر کہیں موجود ہوں تو ان احکامات کی نقول انہیں روانہ کریں۔ جس کے بعد کئی ہندو مندر، جین مندر اور سکھوں کے گرودواروں سے اورنگ زیب کے شاہی فرامین کی نقول ڈاکٹرپانڈے کو موصول ہوئیں، جن میں لکھا تھا کہ ان تمام مندروں اور گردواروں کے اخراجات اور ترقیاتی کام شاہی خزانہ سے پورے کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر پانڈے نے مسلمان حکمرانوں کے بارے میں جتنی بھی تحقیق کی ، اُن پر سچ منکشف ہوتا چلا گیا، لیکن افسوس کہ ڈاکٹر پانڈے ہندووں کو اصل حقیقت سمجھانے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ برطانوی سامراج نفرت وحقارت اور فرقہ پرستی کا جو بیج بو کر ہندوستان سے گیا تھا وہ ایک تنا ور درخت کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ تاریخی حقائق بتلاتے ہیں کہ مسلم حکمران بہت ہی روادار، رحم دل اور فراخ دل ہوتے تھے، کسی بھی مسلم بادشاہ کی اسٹیٹ پالیسی یہ نہیں تھی کہ غیر مسلموں کو جبراً مسلمان بنایا جائے اور انھیںتبدیلی مذہب پر مجبور کیا جائے یا مندروں اور بتوں کو توڑ ا جائے۔ اِس طرح کی ہندو مخالف پالیسی اُن سے منسوب کرنا سراسر تاریخی بددیانتی ہے۔ اب حال ہی میں بھارت میں غریب مسلمانوں کو بزور قوت ہندو بنانے کے واقعے نے جہاں ایک جانب بھارت کی سیکولرازم کی بنیادیں ہلاکر رکھ دی ہیں تو وہیں اس خطے میں ایک ایسی لڑائی کی بنیاد بھی رکھ دی ہے، جس کا انجام کچھ اچھا نظر نہیں آتا۔ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں آگے جاچکا ہے۔ بھارت کا انتہا پسند ہندو صرف بھارت سے ہی مسلمانوں کا خاتمہ نہیں چاہتا بلکہ دنیا کے واحد سپر پاور پاکستان کا وجود بھی اس کیلئے ناقابل برداشت ہے۔یہ طبقہ پاکستان اور نئی افغان حکومت کے درمیان استوار ہونے والے خوشگوار تعلقات پر بھی تلملا اُٹھا ہے۔اِس کالم نگار کی اطلاعات کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘نے حال ہی میں مکمل تباہی کا ایک خوفناک منصوبہ ’’پلان ڈی‘‘ یعنی ’’پلان ڈسٹرکشن‘‘ تیار کیا ہے۔ اس پلان کے تحت بھارت میںکسی انتہائی حساس مقام یا عمارت پر دہشت گردی کا حملہ کرایا جائے گا، جس کا الزام پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر لگاکر اِسے بدنام کرانے اور اس کی قوت کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ افسوس صد افسوس تواِس بات کا ہے کہ پاکستانی ادارے کے خلاف اِس ’’کارِ خیر‘‘ میں جب منفی پراپیگنڈے کے تیر کھاکر پاکستانی کمیں گاہ کی طرف دیکھیں گے تووہاںغنیم کے تیراندازوں کی بجائے اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگی۔
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگی
Dec 15, 2014