”مولانا عبداُلعزیز کی عبداُلعزیزِیاں؟“

Dec 15, 2014

اثر چوہان

لال مسجد اسلام آباد فیم مولانا عبداُلعزیز نے 13 دسمبر کو ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا کہ ”جمہوریت کُفر کا نظام ہے۔ پاکستان کے 85 فیصد لوگ پاکستان میں قُرآن و سُنّت کا نظام اور خلافت چاہتے ہیں اور وہ اس کے لئے طالبان ¾ القاعدہ اور اب داعش کی طرف دیکھ رہے ہیں“۔ لال مسجد سے ملحقہ مولانا عبداُلعزیز کی اہلیہ ماجدہ یونس المعروف اُمّ حسّان کی پرنسپل شِپ میں سرگرم جامعہ حفصہ کی طالبات کی طرف سے مُلّا عُمر کو ”امیراُلمومنین“ اور داعش کے سربراہ ابُوبکر بُغدادی کو ”خلیفہ“ تسلیم کئے جانے کی ویڈیو جاری کئے جانے پر ¾ مولانا عبداُلعزیز نے کہا کہ”جامعہ حفصہ کی طالبات نے مُلّا عُمر اور ابُوبکر بُغدادی کے لئے صِرف دُعائیں کر کے اُن کے لئے نیک تمناﺅں کا اِظہار کِیا ہے“۔ مولانا عبداُلعزیز نے یہ نہیں بتایا کہ” عوام کس مذہبی فِرقے کے مطابق قُرآن و سُنّت کا نظام اور خلافت کا قیام چاہتے ہیں؟ اور کیا پاکستان اور کسی دوسرے مسلمان ملک میں ¾ مولانا عبداُلعزیز سمیت کوئی ایسا عالمِ دِین موجود ہے جوکردار کے لحاظ سے خُلفائے راشدین کی پَیروں کے خاک کے برابر بھی ہو؟ 

اینکر پرسن نے مولانا عبداُلعزیز سے پُوچھا کہ” جن جمہوریت پسند عُلمائے کرام نے 1973 ءکے آئین پر دستخط کئے اُن کے بارے میں آٰپ کا کیا خیال ہے؟“ تو انہوں نے کہا کہ ”1973 ءکا آئین غیر اسلامی ہے اورہمارے ہاں بعض عُلماءبھی نیک نہیں ہیں“۔ 8 دسمبر کو بیگم اُمِ حسّان نے جامعہ حفصہ کی طالبات کی طرف سے ”داعش“ کی حمایت کی توثیق کرتے ہُوئے کہا تھا کہ” ہم اب بھی مُلّا عُمر کو امیر اُلمومنین اور ابُوبکر اُلبغدادی کو اپنا خلیفہ سمجھتے ہیں۔ جامعہ حفصہ کی طالبات بطور امیر المومنین مُلّا عُمر کی اب بھی بہت عِزّت کرتی ہیں اور ابُوبکر بغدادی کواِس لئے خلیفہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ عالمی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں“۔ بیگم مولانا عبداُلعزیز نے وزیرِ اعظم میاں نوازشریف سے پاکستان میں قُرآن و سُنّت کا نظام قائم کرنے کا مطالبہ نہیں کِیا تھا لیکن مولانا عبداُلعزیز نے انٹرویو میں کہا کہ” اگر وزیرِ اعظم نو از شریف پاکستان ہیں قُرآن و سُنّت کا نظام قائم کردیں تو بے شک امیراُلمومنین بن جائیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے“۔
مولانا عبداُلعزیز لال مسجد کے خطیب(سرکاری ملازم) اور اُن کے چھوٹے بھائی غازی عبداُلرشید نائب خطیب(سرکاری ملازم) تھے۔ انہوں نے مسجد سے ملحقہ زمین پر قبضہ کر کے اُس پر جامعہ حفصہ قائم کر دی تھی اور مولانا عبداُلعزیز کی بیگم اُس کی پرنسپل بن گئی تھیں۔ 6 اپریل 2007 ءکو مولانا عبداُلعزیز نے ”امیر اُلمومنین“ کا لقب اختیار کر کے اور غازی عبداُلرشید کو”نائب امیر اُلمومنین“ مقرر کر کے مُلک بھر میں”شریعت“ کا نفاذ اور لال مسجد میں ”شرعی عدالت“ قائم کر کے (صدر جنرل پرویز مشرف اور مسلم لیگ ق کی) وفاقی حکومت کو وارننگ دی تھی کہ”اگر اُس نے نفاذِ شریعت میں رکاوٹ ڈالنے اور لال مسجد اور اُس سے ملحقہ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ و طالبات کے خلاف کسی کارروائی کی کوشش کی تو پُورے پاکستان میں فدائی حملے ہوں گے“۔
اِس طرح لال مسجد کے سرکاری ملازم ہونے کی حیثیت سے مولانا عبداُلعزیز اور اُن کے بھائی غازی عبداُلرشید نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ پھر اُمّ حسّان کی تربیت یافتہ جامعہ حفصہ کی ڈنڈا بردار طالبات نے بھی اسلام آباد میں بعض گھروں میں چھاپے مار کر وہاں ہونے والے ”غیر شرعی کاموں “کو روکا۔ 12 اپریل2007 ءکو مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کا یہ بیان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنا جس میں کہا گیا تھا کہ ”مولانا عبداُلعزیز اور غازی عبداُلرشید سے میرے اور اتحادی جماعتوں کے مذاکرات اِس لئے ناکام ہُوئے کہ دونوں بھائی اِس بات پر اڑے ہُوئے تھے کہ صدر جنرل پرویز مشرف مُلک میں نظام ِ شریعت نافذ کر دیں“۔ اِس لحاظ سے ریاستِ پاکستان کے خلاف مولانا عبداُلعزیز اور اُن کے بھائی کی طرف سے یہ کھُلی بغاوت تھی۔
چنانچہ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیرِ اعظم شوکت عزیز کے حُکم پر پاک فوج کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن کرنا پڑا۔ آپریشن لال مسجد کی تحقیقات کرنے والے فیڈرل شریعت کورٹ کے جج جناب شہزاد شیخ کی رپورٹ کا یہ حِصہّ قابلِ غور ہے کہ ”ہتھیاروں کے کم سے کم استعمال کے نتیجے میں پاک فوج کو بھی جانی نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ ( لال مسجد میں) عسکریت پسند بِلااِشتعال فائرنگ اور خُودکُش حملوں میں مکمل طور پر تربیت یافتہ تھے۔ فوج اُس وقت فائرنگ کرتی تھی جب مسجد کے اندر سے فائر ہوتا تھا“۔
فوجی آپریشن کے دوران ”امیراُلمومنین“ مولانا عبداُلعزیز بُرقع پہن کر فرار ہوتے ہُوئے پکڑے گئے اور غازی عبداُلرشید کی جان گئی لیکن مولانا عبداُلعزیز اور اُن کے پیروکاروں کو اُس وقت بہت شہہ مِلی جب 12 جولائی 2007ءکو اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے(اُن دِنوں فعال اور متحرک) متحدہ مجلسِ عمل کے صدر قاضی حسین احمد ( مرحوم) سیکرٹری جنرل مولانا فضل اُلرحمن اور مولانا عبداُلغفور حیدی نے کہا کہ”لال مسجد اور جامعہ مسجد پر بمباری اور امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ”شہید“ قرار نہیں دِیا جا سکتا“۔
مولانا عبدالعزیز کی صدر جنرل پرویز مشرف اور مسلم لیگ ق کی حکومت کو دی جانے والی وارننگ صحیح ثابت ہُوئی۔پاکستان میں ”محبِّ وطن طالبان“ اور دہشت گردوں کے” غیر مُحِبّ وطن گروہوں“ کے ہاتھوں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں سمیت 55ہزار معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کی شہادت کے بعد بھی ¾ اُن کے خلاف آپریشن میں لیت و لعل سے کام لِیا گیا لیکن آپریشن ”ضرب اُلعضب“ نے ہر قبیل کے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اس کے باوجود ہماری وزارتِ داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے پاکستان میںعالمی دہشت گرد تنظیم ”داعش “ کی روز بروز بڑھتی ہُوئی سرگرمیوں کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لے رہے۔ جامعہ حفصہ کی طالبات ¾ اُن کی پرنسپل امُ ِ حسّان اور اُن کے میاں مولانا عبداُلعزیز نے مُلّا عُمر کو ”امیر اُلمومنین“ اور ابُوبکر بغدادی کو”خلیفہ“ تسلیم کر کے اہلِ پاکستان کو اپنا پیغام دے دِیا ہے۔ کچھ دِن پہلے ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہُوئے مولانا عبدالعزیز نے کہا تھا کہ” عالمِ اسلام کی خلافت“ کا مرکز پاکستان ہو گا۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتیں علّامہ اقبالؒ اور قائدِ اعظمؒ کے پاکستان میں مولانا عبداُلعزیز کی ”عبداُلعزیزیاں“ کب تک برداشت کرےں گی؟۔

مزیدخبریں