”اللہ میاں کا انتظار“

کرسٹینالیمب انگلینڈ کی مشہور خاتون صحافی ہیں اور جن دنوں ان کا تعلق فنانشل ٹائمز سے تھا جب وہ ایک سال سے زائد عرصہ پاکستان میں رہ کر پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر حقائق اکٹھا کرتی رہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جن دنوں لندن میں جلاوطن تھیں اور وہیں سے کرسٹینالیمب سے ان کی دوستی کا آغاز ہوا۔ آجکل سنڈے ٹائمز کی خارجہ امور کی انچارج ہیں۔ 1991ءمیں ان کی مشہور تصنیف ”اللہ میاں کا انتظار“ (ویٹنگ فار اللہ) نے خوب شہرت حاصل کی اور ابھی حال ہی میں کرسٹینالیمب نے ملالہ یوسف زئی کی کتاب ”آئی ایم ملالہ“ لکھی جس نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ میری جب کرسٹینالیمب سے ملاقات ہوئی تو اس نے پاکستان اور پاکستانی قوم کے متعلق جس بلاغت سے تبصرہ کیا اس پر میں حیران رہ گیا کہ وہ پاکستانی نہ ہوتے ہوئے بھی پاکستانیوں سے زیادہ پاکستان کو جانتی ہے۔کرسٹینالیمب نے مجھ سے کہا کہ پاکستانی قوم اچھے لوگ ہیں مگر وہ اپنی ذاتی ضروریات کی حد تک بھی کوئی خاص تردد پسند نہیں کرتے اور انکی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انکے سبھی ہونیوالے کام کوئی دوسری قوت یا اللہ میاں کر دے ۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ سابق وزیر خارجہ اور پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کے والد سابق گورنر پنجاب سجاد حسین قریشی(مرحوم) جب گورنر تھے تو انکے پاس انکے حلقہ¿ انتخاب ملتان سے لوگ آتے اور آنےوالے سائلوں کا کوئی نہ کوئی کام ہوتا تھا تو وہ مرحوم گورنر سے کہتے کہ سر ہمارا یہ کام ہے آپ کر دیں تو گورنر آگے سے اپنے مخصوص ملتانی سرائیکی لہجے میں جواب دیتے ”سائیں اللہ کریسی“ یعنی اس کام کو اللہ ہی کرےگا اور ان دنوں یہ بہت مشہو رہوا کہ پاکستان بیوروکریسی اور اللہ میاں کے سہارے چل رہا ہے۔
قارئین! گذشتہ ایک سال سے ملک میں جاری دہشتگردی کی لہر کیخلاف آپریشن ضربِ عضب جاری ہے، یوں تو کسی نہ کسی سطح پر یہ آپریشن پچھلے تیرہ سال سے جاری ہے مگر سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد ملکی سلامتی کے اداروں کے پاس کوئی آپشن باقی نہ بچا کہ دہشت گرد اور انکے سہولت کاروں کو مزید رعایت دی جا سکے۔ میرے سمیت عوام کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ جن حالات میں چیف آف آرمی سٹاف کو مقرر کیا گیا تھا وہ کچھ اور تھے مگر سانحہ پشاور نے چیف آف آرمی سٹاف کی سوچ ،ارادے اور عزم بدل کر رکھ دیا۔کئی پاکستانی اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے تمام سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر ذاتی طور پر دونوں باپ بیٹی کرپشن کی لعنت سے یقینا پاک تھے مگر اسی بھٹو کے داماد اور سابق صدر آصف علی زرداری نے تمام کسر نکال کر رکھ دی اور اپنی انہی حرکتوں کی وجہ سے نہ صرف دو دفعہ پیپلزپارٹی کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنا بلکہ ”مسٹر ٹین پرسنٹ “کا لقب حاصل کرکے دنیا بھر میں جمہوریت پسند پاکستانیوں کیلئے جگ ہنسائی کا موجب بھی بنا۔جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے مجھے سوئس کیسز کا انچارج بنایا گیا اور آصف علی زرداری کی رہائی کیلئے کی جانیوالی کوششوں کا نگران مقرر کیا گیا تو مجھے بسااوقات یہ ”مارکیٹنگ“ کرتے ہوئے اس وقت خفت اٹھانا پڑتی جب میرے مقابل کوئی عالمی شخصیت بحث میں مصروف ہوتی تھی مجھے اکثر یورپی اور عالمی رہنماﺅں کی طرف سے جواب ملتا کہ محترمہ کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر یہ جو تم زرداری کا منجن بیچنے چلے ہو اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ شومئی قسمت کہ میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا، موصوف کو رہائی ملی اور پاکستان کو آج یہ دن دیکھنا نصیب ہوئے کہ محترمہ شہید بی بی کے آبائی صوبہ سندھ کو پچھلے آٹھ سال میں تاریک افریقہ کا کوئی علاقہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ تھر ہی نہیں لاڑکانہ اور کراچی میں بھی پانی، بجلی، گیس ناپید ہیں اور بمبینو سینما پر ہاﺅس فل کا بورڈ لگا کر ٹکٹیں بلیک کرنےوالا جرائم پیشہ فرد آج ساٹھ ارب ڈالرز کے اثاثوں کا مالک ہے اور اب جب رینجرز اور دیگر اداروں کے ہاتھ ان معاشی دہشت گردوں کے گریبانوں تک پہنچے ہیں، ایان علی اور ڈاکٹر عاصم جیسے بڑے مگرمچھ قانون کی گرفت میں آئے ہیں تو یہ کرپشن کنگز بوکھلا اٹھے ہیں۔
میری اطلاع کے مطابق آج سے دس بارہ روز قبل جب رینجرز کے دستے موجودہ اور سابقہ حکومت کے درجن بھر سابق اور موجودہ وزراءکو حراست میں لینے کیلئے جانے ہی والے تھے تو امریکہ، جدہ اور دہلی میں بیک وقت گھنٹیاں کھڑک گئیں۔ چیف آف آرمی سٹاف نے معاملے کو یہیں چھوڑنے سے تو انکار کیا مگر کچھ روز تک آصف علی زرداری ، فریال تالپور، منظور کاکا سمیت موجودہ حکومت کے کچھ وفاقی اور صوبائی وزراءکو وفاقی ادارے اپنی تحویل میں لینے کا پلان تیار کر چکے ہیں۔ اسی سلسلے میں امارات کے سربراہ شیخ محمد کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا فون کال کرنا بھی معنی رکھتا ہے۔ کراچی میں سنیاسی بابا سائیں قائم علی شاہ جو حرکتیں کرتے ہوئے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اسکی ڈور بھی دوبئی سے ہل رہی ہے مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی اور چوہے بلی کا یہ کھیل کچھ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا۔ ہٹلر نے کیا خوب کہا تھا”اگر اپنے دشمن کو تباہ کرنا ہو تو اسکی فوج کے متعلق شکوک و شبہات پھیلا دو“اگر ان معاشی دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر چھوڑ دیا گیا تو یہ اپنے مذموم مقاصد کیلئے ملک توڑنے کی حد تک خدانخواستہ جا سکتے ہیں۔ اب یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ 65ءکی جنگ کی طرح ضربِ عضب میں بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ ان معاشی دہشتگردوں کی سرکوبی کیلئے اپنے فرائض کو پورا کرے ۔یقین کیجیے انقلاب گھر بیٹھے آپ کی جھولی میں نہیں ڈالا جائے گا اور بقول شاعر:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
کل شہدائے آرمی پبلک سکول پشاور کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے اس سلسلے میں پیش کی جانےوالی مختلف چینلز پر ڈاکومنٹری دیکھ کر میری بیوی اور بچے بالکل اسی طرح غم کی تصویر بنے بیٹھے ہیں جس طرح باقی بیس کروڑ عوام ۔ہم سب ان بہادر بچوں کے والدین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

ای پیپر دی نیشن