اسلام آباد (اے ایف پی+ نیٹ نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر ٹی سی راگھون نے کہا ہے کہ بھارت آئندہ امن مذاکرات میں کشمیر کے صرف اس حصے پر بات کرے گا جو اس وقت اسلام آباد کے زیرانتظام (آزاد کشمیر) ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے پاکستان دورے کے دوران دونوں ملکوں نے وزارتی سطح پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دونوں ملکوں کے جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات میں امن، سلامتی کشمیر سمیت دیگر علاقائی تنازعات پر گفتگو ہوگی۔ تاہم اسلام آباد میں لیکچر کے دوران راگھون کے اس بیان کے بعد امن بات چیت کے عمل میں رکاوٹ کھڑی ہونے کا اندیشہ لاحق ہو گیا ہے۔ جب بھارتی ہائی کمشنر سے پوچھا گیا کہ کیا آیا نئی دہلی کے زیرانتظام (مقبوضہ کشمیر) پر گفتگو کی گنجائش ہے تو ان کا کہنا تھا 1947ءمیں پاکستانی فورسز کے کشمیر پر حملے کے بعد بھارت نے سب سے پہلے اقوام متحدہ سے مداخلت کی پٹیشن دائر کی تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ ہماری پٹیشن کی بنیاد یہ تھی کہ بھارت کے حصے میں آنے والے کشمیر کا ایک حصہ پر (بقول ان کے) پاکستانی فوج کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ ہم سے پوچھتے ہیں کہ بھارت کیا گفتگو کرے گا یا کر رہا ہے تو وہ پاکستان کے کنٹرول میں موجود کشمیر (آزاد کشمیر) کا حصہ ہے۔ ایک صحافی نے کہا کہ ان کے خیال میں بھارت نے ایک قدم پیچھے لیا ہے۔ عالمی سطح پر کشمیر کو متنازعہ خطہ تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی نازک صورتحال مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ ردعمل سے بچنے کیلئے محتاط انداز میں آگے بڑھیں۔ یاد رہے کہ نئی دہلی نے نومبر 2008ءمیں ممبئی حملوں کے بعد مذاکرات ختم کردیئے تھے۔ 2011ءمیں دونوں ملکوں نے امن بات چیت بحال کرنے پر اتفاق کیا مگر 2014ءسے کشمیر کی متنازعہ سرحد پر شیلنگ سے دونوں جانب جانی و مالی نقصان ہوا۔ 30نومبر کو پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان مختصر ملاقات اور پھر دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کی بنکاک میں مذاکرات بظاہر سرد مہری ختم کرنے کا سبب بنی۔ نجی ٹی وی کے مطابق بھارتی ہائی کمشنر نے آزاد کشمیر پر پاکستان کے مبینہ غیر قانونی قبضے کا واویلا مچا دیا ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات میں آزاد کشمیر کے مسئلے پر بھی بات کریں گے۔
بھارتی ہائی کمشنر
نئی دہلی ( نوائے وقت رپورٹ، ایجنسیاں) بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات مثبت رہی ہے، دونوں ممالک بات چیت سے مسائل حل کرنے پر متفق ہیں، وزیر خارجہ کی پاکستان کے دورے کے حوالے سے بریفنگ کے دوران راجیہ سبھا میں بھارتی اپوزیشن نے خوب ہنگامہ کیا تاہم لوک سبھامیں ہنگامہ نہیں ہوا، اپوزیشن نے سپیکر ڈائس کی نشست کا گھیراﺅ کر لیا۔ سشما سوراج نے پاکستان کے دورے کی تفصیلات بتانا شروع کیں تو ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ اپوزیشن کے شور شرابے کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہےں دے رہی تھی تاہم ہنگامہ آرائی کے باوجود سشما سوراج نے تقریر جاری رکھی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک بات چیت سے تمام مسائل حل کرنے پر متفق ہیں، مذاکرات میں امن و امان اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام ایشوز پر بات کی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان لاتعلقی خطے میں امن اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ تعلقات میں دوریاں خطے میں امن خوشحالی اور ترقی کی راہ میں حائل تھیں۔ کانگریس نے بھارتی پنجاب میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر احتجاج کیا اور ریاستی حکومت کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔سشما سوراج نے کہا کہ پاکستان اور بھارت نے جامع مذاکرات کی بحالی پر اتفاق کیا ہے دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری مذاکرات کا ایجنڈاطے کریں گے دونوں ملکوں کے قومی سلامتی مشیروں میں بینکاک میں امن، سلامتی، دہشت گردی اور جموں وکشمیر سمیت دیگر مسائل پر بات چیت ہوئی ، وزیر اعظم نواز شریف اور سرتاج عزیز سے ممبئی حملوں کے ملزموں کے ٹرائل پر بات چیت کی ہے ، بینکاک میں دونوں ملکوں کے قومی سلامتی مشیروں کے مذاکرات کی روشنی میں اسلام آباد میں جامع مذاکرات کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا ،بی بی سی کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارتی حکومت کی پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات بنانے کی کوشش رہی ہے پاکستان سے جامع مذاکرات کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے، یہ دونوں ملکوں کے عوام اور رہنماﺅں کی خواہش بھی ہے۔ بھارت پاکستان سے مذاکرات کو خطے میں امن اور ترقی کی نئی شروعات کے طور پر دیکھتا ہے حکومت ملکی سلامتی کے ساتھ پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں سے پرامن ماحول کے فروغ اور تعاون کے رشتے کو سب سے زیادہ ترجیح دیتی ہے۔ میں ایوان کو یقین دہانی کراتی ہوں کہ حکومت ملکی مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گی کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے ہر طرح کا اقدام کرے گی، جامع مذاکرات کی بحالی سے خطہ میں امن اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا، مجھے یقین ہے کہ ایوان حکومت کے اس اقدام کی مکمل حمایت کرے گا۔ انہوں نے لوک سبھا کو بتایاکہ پاکستان بھارت تعلقات میں اتار چڑھاﺅ مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کا فیصلہ اعتماد پر مبنی ہے۔ انہوں نے بظاہر دہشت گرد گروپوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سبوتاژ کرنے کی کوششیں کرنے والوں کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود مذاکراتی عمل کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہنا چاہیے۔ پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ جائز تھا۔ خطے میں امن واستحکام کیلئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پیدا ہونے والی خلیجوں کو پر کرنے کے لئے پل بنانے کی ضرورت ہے۔ تنقید کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تازہ ترین اقدامات کے تحت دہشت گردی کی سطح کے مذاکرات اب خارجہ سیکرٹریوں کی بجائے قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر ہوں گے، انہوں نے کہا کہ بنکا ک میں قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات کسی تیسرے فریق کی مداخلت پر نہیں ہوئی۔ آپ جانتے ہیں اوفا پراسیس جیسی میٹنگ نئی دہلی میں نہیں ہو سکتی ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ زمین پر کچھ بھی نہیں بدلاکیونکہ ہم نے کہا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس لئے اب قومی سلامتی کے مشیر دہشت گردی پر بات کیا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت پاکستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کی کوشش رہی ہے، پاکستان کے ساتھ باہمی جامع مذاکرات دونوں ممالک کے رہنماو¿ں اور عوام کی خواہش بھی ہےں،بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو خطے میں امن اور ترقی کی نئی شروعات کے طور پر دیکھتا ہے،پاکستان اوربھارت امن وامان، سکیورٹی اور جموں کشمیرسمیت تمام معاملات پر جامع مذاکرات میں مصروف ہیں ۔سشما نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر، امن و سلامتی سمیت تمام حل طلب معاملات پر بات کریں گے۔ سشما سوراج نے نریندر مودی کے آئندہ سال دورہ پاکستان کی بھی تصدیق کی۔
راج سبھا