ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بعض الفاظ ایسے استعمال کرتے ہیں جنہیں سن کر ہنسی آتی ہے۔ یہ الفاظ کا گورکھ دھندا بھی عجیب ہے کہ ذہن کے گودام میں بوریوں کی صورت میں محفوظ رہتا ہے اور جب سگنل ملا کوئی خاص لفظ زبان کے فرش پر رقص کر کے بات کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں پاناما کیس کے حوالے سے عمران خان کے ذہن میں یہ جملہ آیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں وزیراعظم نواز شریف کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔ ہمارے ہاں ہر سیاستدان کسی نہ کسی موقع پر ایسے بے شمار الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اگر کوئی ایم فل یا پی ایچ ڈی کا طالب علم ایسے الفاظ اکٹھے کرنا شروع کرے تو ہر سیاستدان کا الگ لُغت تیار ہو سکتا ہے۔ جب کوئی طالب علم کسی بک شاپ پر جائے گا تو کہے گا عمران خان والی ڈکشنری پر کتنے فیصد رعایت ملے گی۔ شہباز شریف کے حوالے سے جو فرہنگ تیار ہو گی، وہ فرہنگِ شہباز کے نام سے مقبول ہو گی۔ شیخ رشید صاحب کے نام والی ڈکشنری ”فرہنگِ رشیدیہ“ کہلائے گی۔ یہ ہاٹ کیک کی طرح بکے گی کیونکہ اس میں پورے بارہ مسالے ہوں گے۔ ویسے شیخ صاحب کو مثالیں اور مسالے دینا خوب آتا ہے۔ اب دیکھیں نا، عمران خان صاحب کے ذہنِ رسا میں یہ اچھوتا جملہ آیا ہے کہ ہم نواز شریف کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے تو اس لحاظ سے عمران خان ایک مفکّر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ویسے بھی اگر اُن کے اچھوتے ذخیرہ الفاظ جو انہوں نے اپنی مو¿قر پریس کانفرنسوں کے وسیلے سے عوام تک پہنچائے ہیں، پر غور کیا جائے تو وہ عمرانی دبستان کے بانی کہلائے جا سکتے ہیں۔ پیچھا نہ چھوڑنے پر تو ایک مشہور گانا بھی گایا جا چکا ہے۔ ”تیرا پچھا نئیوں چھڈنا پانویں لگ جان ہتھکڑیاں“۔ ہتھکڑیوں کے کئی مواقع ملے لیکن حکومت کو شاید مذکورہ گانا مکمل کرنا منظور و مقصود نہ تھا۔ اس سے ایک مفہوم یہ بھی سامنے آتا ہے کہ نواز شریف صاحب عمران خان صاحب کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔
بعض بچے اپنے والدین کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ہمارے ایک دوست کا بچہ اسے گھر سے گاڑی نہیں نکالتے دیتا۔ جب والد سوٹ بوٹ پہن کر گاڑی کے سٹیئرنگ پر بیٹھتا تو بچہ برابر والی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔ والد بچے سے کہتا ہے کہ میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ تم گاڑی سے اتر جاﺅ۔ والد کی صورت اس وقت دیدنی ہوتی ہے، وہ دنیا جہاں کا مجبور، مظلوم اور بے بس شخص دکھائی دیتا ہے اور بچہ ہائی جیکر لگتا ہے اور گن پوائنٹ پر اپنے مطالبات منواتا نظر آتا ہے۔ والدہ اس وقت والد سے بھی زیادہ مجبور دکھائی دیتی ہے جب اسے بچے کو گھر چھوڑ کر شاپنگ کرنے جانا ہو۔ والدہ بچے کے سامنے سارے کھلونے رکھ دیتی ہے، انواع و اقسام کے بسکٹوں کا لالچ دیتی ہے۔ اس کی اوقات سے زیادہ رقم آفر کرتی ہے لیکن بچہ اپنی ضد پر ڈٹا رہتا ہے اور ایسے ایسے بین کرتا ہے کہ ہمسایوں کے دل پسیج جاتے ہیں۔ برقع پوش مائیں بچے کے سامنے برقع پہن کر تیار نہیں ہوتیں۔ وہ برقع شاپر میں لپیٹ کر کسی کے ہاتھ باہر پہنچاتی ہیں اور بچے کی آنکھوں سے اوجھل ہو کر برقع پہنتی ہیں۔ ضدی بچے اپنے والدین کو وقتاً فوقتاً کٹہرے میں کھڑا کرتے رہتے ہیں۔ بعض والدین ضدی بچوں کو پنجابی والے ”کٹہرے“ کا مزا بھی چکھا دیتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے تو ”پیچھا نہ چھوڑنے“ کے چند الفاظ ادا کئے ہیں۔ ان الفاظ میں پاکستان کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے۔ مدتِ مدید سے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ اگر کسی کو پاکستان میں بیروزگاری کا یقین نہیں آتا تو وہ کسی بیروزگار نوجوان سے پوچھ لے کہ بیروزگاری کہاں ہے تو وہ نوجوان کہے گا کہ وہ میرا پیچھا کر رہی ہے اور میں اس کے آگے آگے بھاگتا جارہا ہوں۔ اسکی شکل بہت بھیانک ہے۔ اسکے بڑے بڑے دانت اور بڑے بڑے ناخن ہیں۔ اسی طرح کسی غریب مزدور یا عام آدمی سے پوچھیں کہ مہنگائی کی شکل و صورت کیسی ہے؟ تو وہ بتائے گا کہ وہ کس کس شکل میں اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ مکان کے کرائے کی شکل میں، بجلی، پانی اور گیس کے بل کی شکل میں، بسوں، ویگنوں کے کرایوں کی شکل میں۔ سبزیوں، دالوں اور گوشت کی شکل میں اور بچوں کی فیسوں کی شکل میں۔ غریب آدمی پیچھا کرتی ہوئی مہنگائی کی یہ شکلیں دیکھ دیکھ کر کئی مرتبہ بیہوش ہو جاتا ہے اور سٹریچر پر گھر پہنچا دیا جاتا ہے۔ جب یہ غریب شناختی کارڈ بنواتے ہوئے جنس کا خانہ بھرتا ہے تو اس میں ”مرد“ کی بجائے ”مُردہ“ لکھ دیتا ہے۔ جہالت بھی ہمارا پیچھا کرتی چلی آرہی ہے۔ ہماری ہر حکومت جہالت مٹانے کا عزم کرتی ہے۔ نئے سکول کالج بھی کھولتی ہے اور جہالت کے خلاف تقریریں بھی کرتی ہے لیکن جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو وہ ہمارا پیچھا کرتی ہوئی چلی آرہی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ہر شخص کو چلتے ہوئے احتیاطً مڑ مڑ کر دیکھتے رہنا چاہیے کہ کون سی چیز اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی، کیوں کہ ن لیگ کو بخوبی علم ہو چکا ہے کہ کون سی چیز ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔
عمران خان کی پسندیدہ شخصیت۔۔۔؟
Dec 15, 2016