واقعات و حادثات اور سانحات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ واقعات وقت کے ساتھ نہ صرف بُھلا دیئے جاتے ہیں بلکہ اُن کے متبادل بھی ڈھونڈ لیے جاتے ہیں۔ حادثات سے گزرنے کے بعد انسان آہستہ آہستہ خود کو سنبھال لیتا ہے مگر سانحہ انسان کی زندگی کا وہ روگ بن جاتا ہے جو اُسے گور تک لے جاتا ہے۔ اور اگر غور کریں تو غم،دُکھ اور تکلیف انسان کو شکست و ریخت کے عمل سے نکال کر دوبارہ تعمیر کر دیتے ہیں مگر روگ (جس کو اگر ہم اُلٹا کر پڑھیں تو (گور) بنتا ہے انسان کے ساتھ یوں چمٹ جاتا ہے جیسے مردہ بچے کی لاش ایک ماں کے سینے سے چمٹتی ہے اور اُسے گور تک لے جاتی ہے۔ ”الف اللہ چمبے دی بوٹی من وچ مُرشد لائی ھو“ تو جب عشق اللہ کی خوشبو خاکی جسم کے اندر سما جاتی ہے تو انسان بقاءکے سفر پہ چلنے کے لیے فنا ہو جانے کی آرزو کرتا ہے اس کا تعلق دنیاوی واقعات اور حادثات سے نہیں ہوتا اس کے پھولوں کی مالا ہر فقیر، سادھو اور جوگی کے گلے میں نہیں ڈالی جاتی بلکہ اس کے لیے خاص چُناﺅ کیا جاتا ہے۔ جس طرح اولیاءاللہ پانی کے اوپر چل کر دریا پار کرتے ہیں اسی طرح سے خُدائی قوت اپنی راہ میں قربان ہو جانے والے شہداءکو معراج کی اُس حد تک لے جاتے ہیں جس کا ہمیں گمان بھی نہیں، ادراک بھی نہیں اور شعور بھی نہیں ہوتا۔
والدین اپنی تسبیح روزوشب کا دانہ دانہ شمار کرتے ہیں، گردش دوراں میں اپنے لہو اور پسینے کا قطرہ قطرہ اُنڈیلتے ہیں تو اُن کی اولاد پروان چڑھتی ہے۔ مگر کیا ہم ان جگر گوشوں کی اس لیے نشوو نما اور تربیت کرتے ہیں ان معصوموں کی جن کے ہاتھ میں قلم،آنکھوں میں رنگین خواب، چہرے پہ معصومیت کا نور، ہونٹوں پہ جلترنگ ہنسی، باتوں میں جگنوﺅں سی شرارتیں ہوتی ہیں کہ کوئی بھی آئے اور سب کو لہو لہان کر دے اور اُن کی خوشبواُن کے پھول جسموں کو نوچ کر ختم کر دے مگر ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ....!
حوادث توڑ دیتے ہیں اگرچہ گھونسلے لیکن
پرندوں کی مگر شاخوں سے خوشبو تو نہیں جاتی
آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ شاید ہماری تاریخ کا سب سے بڑا قومی المیہ ہے، ہنستے مسکراتے علم کی لگن میں مگن بچوں کا قتلِ عام ایسا دلخراش سانحہ ہے جس کے متعلق سوچ کر جسم و جاں لرز جاتے ہیں۔ اسلام تو دور کی بات کسی بھی مذہب بلکہ انسانیت کا کوئی قرینہ اس طرح سفاکی درندگی اور بربریت کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ دہشت گرد ،یہ بے چہرہ اور بے ضمیر لوگ کتنی بے دردی سے انہوں نے بزدلانہ حملہ کیا اور نشانہ بنایا اُن فرشتوں کو جو سکول آنے سے پہلے ماں کے گلے میںبانہیں ڈالکر لاڈ کر کے آئے تھے۔ جن کو ماﺅں نے یخ بستہ سردی میں بھی گرم بستر سے اس لیے اُٹھایا تھا کہ اُنہوں نے اپنے وطن کے لیے قلم کی تلوار اور علم کی پتوار سے ایک اچھے معمار اور مُحبِ وطن بننا تھا۔ جن کے گُلال رُخساروں پہ ماں نے بوسہ دیا تھا اور تاکید کی تھی کہ لنچ ضرور کر لینا ورنہ میں بھی کچھ نہیں کھاﺅں گی۔ انہیںیوں گولیوں کی بوچھاڑ سے تار تار کر دیا کہ الاماں الاماں....! اُن معصومین کی خواہشیں، ناز نخرے، کھیل اور رنگ و خوشبو سی زندگی آہ زاریوں میں بدل گئی۔ ماں کی پتھرائی آنکھیںپتھر کی صلیبوں کے نیچے سفید چادر کے کفن کے پیچھے اپنے جگر گوشوں کے ٹکڑے ڈھونڈنے لگیں۔
سانحہ پشاور خون کا وہ سیلاب تھا جس میں آج دو سال گزرجانے کے بعد بھی ہم اُسی اذیت میں ڈوبے پڑے ہیں۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں بلامبالغہ جتنی قربانیاں افواجِ پاکستان نے دیں ہیں بیان سے قاصر ہیں۔ فکری اور تخیلاتی جمالیات میں ایک وردی سے سجے ہوئے جسم کے لیے وطن اور ماں کا ایک ہی رُتبہ ہے مگر وہ نودمیدہ پھول جن کے جسم پہ ایک ہلکی سی خراش پہ ماں باپ کا دل تڑپ اُٹھتا ہے اُن کا یوں اس وطن عظیم کے لیے شہادت کا انتخاب کتنا کٹھن مرحلہ تھا۔ دہشت گرد کس طرح خاموشی سے آیا اور اُس نے علم کے فرزندوں کو یوں نشانے پر لیا کہ جو بچ گرا اُن کو پاﺅں کی ٹھوکروں سے مارتے اور اُن کے پاک جسموں میں زندگی کی رمق محسوس کرتے اور پیشانی پہ عین اُس جگہ وار کرتے جہاں ماں چومتی تھی یا وہ سجدہ ریز ہوتا تھا۔ دہشت گردوں کے اس عمل پہ پوری انسانیت ماتم کدہ بن گئی تھی۔ پتھروں کے کلیجے بھی پھٹ گئے۔ اب پھر دو سال بعد اُسی طرح سے ہر آنکھ کی پُتلی رو رہی ہے۔ سسکیاں اور آہیں وادیوں میں گونج رہی ہیں۔ ندی نالوں کی آشفتہ سری بھی سرنگوں ہے۔ آسمان پہ پھر نقارے بج اُٹھے ہیں ۔ کُرلاتی،بلکتی ماﺅں کی گود سے چھینے گئے بچوں کو پھر سے خوشبوئے شہادت میں نہلاﺅ کہ پھر 16دسمبر آگیا ہے۔کیا ہم ذکر کریں اُس صائمہ طارق (شہید) کا جو درس دیتے دیتے اپنے طالبعلموں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی ار دہشت گردوں نے اُن پر فاسفورس ڈالکر جلا ڈالا مگر کون جانتا ہے کہ وہ آگ اُن پر جنت کی نہر کی ٹھنڈک بن گئی ہو۔ جس طرح نبی اللہ کو آگ چھو نہ سکی اسی طرح ایک اُستاد کی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے آگ نے بظاہر اُن کو جُھلسا تو دیا مگر حقیقت میں تپش راحت میں تبدیل ہوگئی ہوگی۔ جب یہ خبر آگ کی چنگاری کی طرح پھیلی تو مائیں ننگے پاﺅں سکول کی جانب دوڑیں۔ رشتے داروں اور بچوں کے والد نے کاروبارِ زندگی چھوڑا اور سکول کی جانب ہو لیے نہ راستہ کٹتا تھا نہ وقت تھم رہا تھا، سانسیں اتھل پتھل تھیں، یقین اور بے یقینی کی انتہائی تکلیف دہ حالت تھی۔ اللہ کی امان مانگتی دُعائیں عرشِ مُعلیٰ پہ پہنچ رہی تھیں۔وہاں پہنچ کر صورتحال یہ تھی ہر طرف سائرن کی آوازیں تھیں ہر کوئی چیخ و پکار کر رہا تھا۔مجھے راستہ دو میرا بیٹا اندر ہے ،میرے دوجگر گوشے مجھے پکار رہے ہیں، میری بیٹی کو کون بچائے گا اور میرے بچوں کو تو بہت ڈر لگتا تھا۔غرض ہر درد کا مارا پکار رہا تھا ور سی ایم ایچ میں تو وہ قیامت کا منظر تھا ۔ اعلان در اعلان ہو رہے تھے۔ عبداللہ اعظم آفریدی ولد فلاں فلاں کو بستر نمبر4 سے آکے لے جائیں۔وہاں ہر کوئی اپنے پیاروں کو سفید چادروں کے نیچے تلاش کر رہے تھے کہیں شناخت ہو رہی تھی کہیں جسم اور چہرہ یوں چھلنی اور خون آلود تھا کہ والدین کو پہچاننے میں دقت ہو رہی تھی یا پھر وہ پہچاننا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ کس طرح وہ سمجھتے کہ یہ شہید جسم اُنکے لخت جگر یا بیٹی کا ہے۔الغرض وہ قیامتِ صغریٰ تھی کہ اُس میں سے گزرنے والے اب کسی بھی قیامت کے لیے تیار تھے۔ آج دو سال گزر گئے مائیں آج بھی اُسی طرح روز جیتی اور مرتی ہیں۔ شہداءکے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ خوش ہو نا چاہیں تو خوش نہیں ہو سکتے وہ قہقہ لگانا بھول گئے ہیں۔ مگر آفرین ہے ان والدین پر کہ اُنہوں نے زندگی کی ہر مصروفیت سے بالا تر ایک دوسرے کو محبت ،ہمدردی اور تسلی کی ایک ایسی مالا میں پَرو لیا ہے کہ کسی کو غمزدہ نہیں ہونے دیتے۔ اپنے اندر گرتے خون کے آنسو چپکے سے بہاتے ہیں مگر دوسرے کو مایوسی کے گڑھے میں نہیں گرنے دیتے۔ آج بھی سکول کی وہی عمارت ہے وہی تعلیم اور درس کے لیکچر وہی کمرے اور فرنیچر مگر خوشبوئے شہادت سے معمور اُس مسکن میں آج بھی ہمارے تمام شہیدوں کی روحیں کھیلتی اور مسکراتی ہیں۔ وہی اٹکھیلیاں اور نغمے ہیں مگر بس ہم اپنے بچوں اور اُستادوں کو دیکھ نہیں سکتے۔ وہ ہماری رگ رگ میں بسے ہیں کون کہتا ہے کہ 16دسمبر 2سال گزار آیا ہے۔سوچیں توروزانہ 16دسمبر کا سورج ہمارے دلوں پہ طلوع ہوتا ہے آسمانوں پہ پھولوں کے جنازے پڑھائے جاتے ہیں۔ سلام ہے میرے وطن کے معصوم جگر گوشوں کو جو ماں کی گود سے نکلے تو آغوشِ جنت میں گئے۔