جس امتحان سے بچنے کی دُعا کیا کرتا تھا وہی آن پڑا ہے۔ جس طوفان کا کبھی کبھی دھڑکا رہتا تھا اسی میں آن گھرے ہیں۔ کیا یہ کوئی حادثہ تھا؟ نہیں اس سے بڑھکر تھا۔۔ صرف سانحہ بھی نہیں۔۔ ایک قیامت تھی جوسات دسمبر کی شام ہم پر ٹوٹ پڑی۔ ایک آسمانی بجلی تھی جس نے ہمارے قابلِ رشک گھرانے کی سب رونقیں بھَسم کر دیں۔ اُسامہ ہمارے گھرانے کا روشن ماہتاب تھا جسکے ڈوب جانے سے پوراگھر انہ تاریکیوں میں ڈوب گیا ہے۔ وہ اس گھر انے کی سب خوشیاں سمیٹ کرلے گیا ہے۔ میں ڈیرہ اسمعٰیل خان سے واپس آرہا تھا کہ باجی کی کال آئی۔ آواز میں ایسا درد اور بے بسی تھی کہ جسم لرز اُٹھا۔ پھر کئی گھنٹے تڑپتا رہا کہ بہن پر کوہ ہمالیہ آگرا ہے اور بھائی اسکے پاس نہیں ہے۔
اُسامہ میری باجی جبین (جنہیں ہم بچپن سے ہی آپا میں جی کہتے ہیں) کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، ہم تینوں چھوٹے بہن بھائیوں (میں، ڈاکٹر نثار صاحب اور آپا میں جی) کا عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا اسلئے ہماری آپس میں زیادہ دوستی تھی۔ آپا جی کے تینوں بچّے ہی مجھے بہت پیارے تھے۔ اُسامہ چھوٹاہونے کے ناطے سب کا لاڈلا اورگھر کا راج دلارا تھا۔ اونچا، لمبا، خوبرو، ذہین، خوش اخلاق، ملنسار۔ وہ بلاشبہ گھر کا چاند تھا جسکے طلوع ہونے سے گھر کے درودیوار چمک اٹھتے۔
جب وہ چھوٹا تھا تو مجھے یونیفارم میں دیکھ کر کہتا تھا "میں بھی پولیس افسر بنوں گا" گھر میں سب اسے پیار سے" آئی جی صاحب" کہنے لگے۔ پھر ایک دفعہ میں تینوں بہن بھائیوں۔ اُسامہ، سعد اور ملیحہ کو لیکر چترال گیا جہاں میرا دوست یوسف ڈپٹی کمشنر تھا۔ وہاں ہم دو تین دن ڈی سی ہاؤس میں رہے تو اس نے کہا "میں تو ڈی سی چترال بنونگا" ۔ کائناتوں کے مالک نے معصوم بچّے کی یہ خواہش بھی ایک روز پوری کردی۔
اُسامہ اپنی بے پناہ ذہانت اور قابلیت سے ہمیشہ کلاس میں فرسٹ آتا۔ ایف ایس سی کے بعد اس نے انجینئر بننے کا ارادہ کر لیا اور الیکٹریکل انجینئرنگ کا انتخاب کیا۔ ابھی اسکا رزلٹ نہیں آیا تھا کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے بہت اچھی ملازمت کی پیشکش کردی جو اس نے قبول کرلی، وہ پرائیوٹ سیکٹر میں ہی نوکری کرنا چاہتا تھا مگر میں اسے سول سروس کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا رہا اور بالآخر اس نے میری بات مان لی، چند ماہ تیاری کرکے مقابلے کے امتحان میں بیٹھ گیا اور پہلی کوشش میں ہی ایڈمنسٹریٹیو سروس کیلئے منتخب ہوگیا۔ گھر کی تربیت اور بڑوں کی روایات نے اسکی سمت پہلے ہی متعین کردی تھی، اور پھر وہ ان روایات کا پرچم لیکر نکلا توسب کو پیچھے چھوڑ گیا۔ دیانتداری، جرأت اور انصاف اس گھر کا ورثہ تھا مگر عوام سے محبّت، خوش اخلاقی، عوامی فلاح کے کاموں سے عشق، علاقے کی بہتری اور ترقّی کیلئے نئے نئے منصوبوں کی تخلیق اور اسے عملی جامہ پہنانے کا جنون اسکی اپنی شخصیّت کا خاصہ تھا۔ اس نے پھٹے کپڑوں میں ملبوس پسے ہوئے عوام سے اپنا رشتہ استوار کیا انکے زخموں پر مرہم رکھا، انکے مسائل اور مصائب کو ذاتی سمجھ کر انہیں کم کرنے کی آخری حد تک کوشش کی۔ عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا اس نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ اس نے قانون کی حکمرانی اور غیر جانبداری کا پرچم کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا اور پھر لوگوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، اپنے دل نکال کر اسکی مٹھی میں رکھ دیئے۔ دلوں میں اسکی یادیں اور گھروں میں اسکی تصویریں سجالیں۔ اپنی تمام ترمحبتیں اور عقیدتیں اس پر نچھاور کردیں۔
ایبٹ آباد کے لوگوں کی زبانی میں اسکی ہر دلعزیزی کے قصّے سنتا تو خوشی سے نہال ہوجاتا جب کوئی کہتا کہ اُسامہ میں آپکا پَرتو نظر آتا ہے تو سجدۂ شکر بجا لاتا مگر اسکے غیر معمولی کاموں اور کارناموں سے میں بھی پوری طرح آگا ہ نہیں تھا اسکا اندازہ تو اب ہوا ہے جب چترال کے دور دراز علاقوں سے عام لوگ بیس بیس گھنٹے بسوّں کا سفر کرکے اسلام آباد میں اُسامہ شہید کے والدین کو یہ بتانے آتے ہیں "جی اُسامہ صاحب ہمارا ہیرو تھا وہ ہمارا محسن تھا"۔ وہاں کے صاحبانِ دانش کا کہنا ہے کہ "عوام کا اتنا ہمدرد افسر آجتک نہیں دیکھا"، منتخب نمائندے کہتے ہیں "انگریزوں کے بعد چترال کیلئے کسی نے کام کیا ہے تو وہ ہمارے ڈی سی اُسامہ صاحب نے کیا ہے، چترال کے ہر گھر میں سوگ ہے، ہر گھر میں اپنے محسن کیلئے دعائیں ہورہی ہیں"۔ وہاں کے پولیس افسروں کا کہنا ہے،" چترال کے عوام اُسامہ وڑائچ کو دیوتا سمجھتے ہیں"۔
خیبر پختونخواہ کے سینئر ترین افسران اعلیٰ کارکردگی کے ضمن میں ہر بار اُسامہ کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ ایک سابق چیف سیکریٹری کہہ رہے تھے کہ پبلک سروس کے تقاضوں کے بارے میں جو بات سینکڑوں کتابوں اور لیکچرز سے نہیں سمجھائی جا سکتی تھی وہ اُسامہ نے چترال میں چودہ مہینے کی سروس میں سمجھا دی کہ پبلک سروس کیا ہوتی ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کسے کہتے ہیں! جب تک اس ملک میں سول سروس رہے گی اُسامہ کا نام زندہ رہیگا۔ اعلیٰ سطحی میٹنگوں میں اسکے حوالے دیئے جائیں گے، پبلک سروس کیلئے اسکے قائم کئے گئے پیمانے ریفرنس پوائنٹ بن جائینگے اور افسروں کی تربیّت گاہوں میں اُسامہ اور اسکے کارناموں کو ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا رہیگا۔وہاں کے سینئر افسران یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی دوسرا اُسامہ نہیں ہے اگر اُسامہ کو دس سال اور مل جاتے تو وہ سول سروس کا کلچر ہی تبدیل کردیتا۔۔ اسکے چلے جانے سے سول سروس اپنے درخشندہ سٹار اور قوم ایک ایماندار، بہادر اور روشن ضمیر سول سرونٹ سے محروم ہوگئی ہے جو بلا شبہ ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے۔
مگر دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر معمولی افراد جب ایک خاص بلندی سے اوپر چلے جاتے ہیں تو وہ صرف گھر والوں کے نہیں رہتے۔۔ لہٰذا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُسامہ اب صرف ہمارا نہیں رہا، ایبٹ آباد، پشاور اور چترال کے دور دراز علاقوں سے لوگ آکر شہید کے والدین سے کہتے ہیں کہ اُسامہ صرف آپکا نہیں اُسامہ ہمارابھی ہے، اُسامہ ایبٹ آباد والوں کا بھی ہے پشاور اور چترال والوں کا بھی ہے اُسامہ تو پوری قوم کا ہے اور پوری قوم اسکے لئے غمزدہ ہے۔۔
اے ربّ ِ کائنات!تو نے ماں جیسی بے مثال ہستی تخلیق کی ہے جو تیرا ہی پَر تو ہے اپنی اس اعلیٰ ترین تخلیق کیلئے اپنے قوانین میں کچھ ترمیم کر لیتا تو تیرا کیا جاتا؟ ماؤںکو جوان بیٹوں کی موت کے عذاب سے exemption دے دیتا تو تیرے لئے کونسا مشکل تھا۔
یا الٰہی ! اُسامہ تو تیرے بندوں کے درد بانٹتا اور ان کیلئے آسانیاں پیدا کرتا تھا تو نے اسکی طرف بڑھنے والی آگ کو کیوں نہ روک دیا؟ ایسی آگ کو آگ کیوں نہ لگا دی۔ یا الٰہی! اسکی زندگی تو افتادگانِ حاک کیلئے وقف تھی اسے چھیننے والی موت کو موت کیوں نہ آگئی؟ مگر اصل حقیقت تو یہ ہے کہ جب حویلیاں میں آگ کے شعلے اسکی جانب لپکے تو چترال کے ہر باسی نے اپنے غم بھول کر اسکی زندگی کیلئے جھولیاں اٹھا لیں اور پھرکوئی اسکی زندگی نہ چھین سکا۔ مالکِ ارض و سماء نے اپنے بندوں کیلئے اسکی خدمات کے صلے میں اسے شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز کرکے ہمیشہ کیلئے زندہ کر دیا۔
جانے والے کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جسطرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
اے رحمان و رحیم و کریم! انسانوں کے دل بھی تیرے ہی پیدا کردہ ہیں۔ اُسامہ، آمنہ اور ماہ رخ کی جدائی کا صدمہ ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہے، ہم پر رحم فرما اورہمیں صبر عطا کردے۔ ہماری غمزدہ باجی کے گہرے زخم پر اپنی رحمتوں کے مرھم رکھ دے۔ انکے کٹے ہوئے دل کو پھر سے جوڑدے اور انہیں صبر اور سکون سے مالا مال کردے۔ یا الٰہی اس حادثے کے تمام شہیدوں کے پسماندگان کو صبرِ جمیل سے نواز دے۔ آمین۔