شاعر نے کہا تھا کہ…
’’یہ اعجاز ہے، حُسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے، داستاں چھڑ آئے‘‘
ممکن ہے شاعر نے اپنی نہیں بلکہ مراکش کے عظیم مسلمان سیّاح دان ابنِ بطوطہ کے ’’حُسنِ آوارگی کا اعجاز‘‘ بیان کِیا ہو جو ، 75 ہزار میل کے سفر کے بعد (28 سال بعد) وطن واپس پہنچا۔ ’’سفر نامہ ابنِ بطوطہ‘‘ عربی، انگریزی اور اردو میں شائع ہُوا۔ ابنِ بطوطہ جہاں بھی گیا وہاں کا بادشاہ (حُکمران) نے اُسے قاضی بنا دِیا۔ وہ ہر جگہ ’’شریعت کے مطابق‘‘ کسی خاتون سے نکاح کر لیتا۔ اُس سے بچے پیدا کرتا اور دوسرے شہر (ملک) کو جاتے وقت ’’شریعت کے مطابق‘‘ اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ۔ اُس نے اپنے سفر نامہ میں اپنی شادیوں اور بچوں کا تذکرہ کرتے ہُوئے لکھا کہ ’’نہ جانے وہ اب کِس حال میں ہوں گے؟‘‘
ابنِ بطوطہ کے دَور میں طیّارہ ایجاد نہیں ہُوا تھا۔ ورنہ اُسے مراکش سے مختلف ممالک کی سیاحت کرنے کے لئے 28 سال صَرف نہ کرنا پڑتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ طیّارہ ایجاد کرنے والا سائنس دان اہلِ کتاب ( یہودی، عیسائی وغیرہ) میں سے تھا یا نہیں ؟ لیکن مَیں جب بھی پی آئی اے یا کسی غیر ملکی (مسلم یا غیر مسلم) طیّارے میں سفر کرتا ہُوں تو طیّارہ ایجاد کرنے والے سائنسدان کی مغفرت کے لئے دُعا ضرور کرتا ہُوں ۔ اُس کے بعد بقول حضرت میاں محمد بخشؒ…
’’مالک دا کمّ، پَھل پُھلّ لائونا، لاوے یا نہ لاوے!‘‘
مَیں اپنے کالم کی تمہید طولانی کے لئے معذرت خواہ ہُوں لیکن مجھے خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ( جنہیں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے ’’ شہباز پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا تھا )۔ ہوائی ’’ اَسفار‘‘ ( سفر کی جمع ) کے لئے یہ ضروری تھا ۔ اِسے خادمِ اعلیٰ کے ’’ حُسنِ آوارگی کا اعجاز‘‘ نہ سمجھا جائے ۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب کو سرکاری کاموں اور مختلف ملکوں کی زبانیں سِیکھنے اور بولنے کا شوق ہے ۔ کبھی کبھی اُن کا جانا آنا ہی ہوتا ہے ۔ ’’ شاعرِ سیاست‘‘ خادمِ اعلیٰ کے اَسفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ؎
’’ابھی تو گئے تھے، ابھی لَوٹ آئے
جہاں بھی گئے ، کچھ نہ کچھ لے کے آئے‘‘
خادمِ اعلیٰ اپنے حُسنِ کلام سے غیر ملکی حکمرانوں ( اور عوام کو ) متاثر کرنے میں بہت کامیاب ہیں۔ علاّمہ اقبال نے کہا تھا کہ…
’’ اقبال بڑا اُپدیشک ہے ، مَن باتوں میں موہ لیتا ہے‘‘
علاّمہ صاحب کا یہ مصرع خادمِ اعلیٰ پر صادق آتا ہے ۔ وہ غیر ملکی حکمرانوں سے اُن کی زبان میں گفتگو کر کے اُن کا ’’من‘‘ ( دِل) اپنی ’’ موہ‘‘ ( محبت) کے جال میں پھانس لیتے ہیں ۔ ’’ مَن موہن‘‘ ہندوئوں کے اوتار شری کرشن ؔجی کا صفاتی نام ہے جو لڑکپن میں ورندرا بن میں گوپیوں ( گوالنوں) کے ساتھ رقص کرتے اور اُنہیں بانسری (ونجھلی )دی مٹھڑی تان سُناکر اُن کا من موہ لیتے تھے ۔ وِشنو ؔدیوتا کے اوتار کی حیثیت سے شری کرشن جی نے اُپدیشکؔ کا کردارجنگِ عظیم ( مہا بھارت ) میں اپنے پھوپھی زاد پانڈو ہیر ارجن ؔکے لئے ادا کِیا تھا ۔ اُس ’’ اُپدیش‘‘ ( وعظ ) کا نام ہندوئوں کی مقدس کتاب ’’گِیتا‘‘ ہے ۔
میرا کالم طویل ہوگیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ ’’جمہوریہ تُرکیہ کے مذہبی امور کے سربراہ "President, Presidency Of Religious Affairs" ڈاکٹر مہمت گورمیز (Dr. Mehmet Gormez) نے لاہور میں جمہوریہ تُرکیہ کے وفد کے سربراہ کی حیثیت سے خادمِ اعلیٰ پنجاب کو بتایا کہ ’’تُرک عوام آپ سے بہت لگائو رکھتے ہیں اور آپ تُرکیہ میں بھی’’ ہردلعزیز ‘‘ (Loved By Every Body) ہیں‘‘۔ ڈاکٹر مہمت گورمیز صاحب کے بیان پر یقین کر لینا تُرکیہ سے ہماری دوستی کا تقاضا ہے ۔ مَیں حیران ہُوں کہ ہمارے وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے ( جو ایک ہی وقت پر اذان اور ایک ہی وقت پر نماز کے لئے بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ) خیر سگالی کے طور پر جمہوریہ تُرکیہ کے کسی مہمان وزیر/ وزیراعلیٰ کو یہ کیوں نہیں کہا کہ ’’آپ پاکستان میں بھی بہت ہر دلعزیز ہیں‘‘۔
عوامی جمہوریہ چین میں تو خادمِ اعلیٰ پنجاب کی مقبولیت کے پہلے ہی چرچے تھے ۔ 26 مارچ 2015ء کو خادمِ اعلیٰ پنجاب کے ’’ میڈیا سیل‘‘ کی جاری کردہ خبر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنی۔ جِس میں کہا گیا تھا کہ ’’عوامی جمہوریہ چین کے کارپوریٹ سیکٹر، تجارتی اداروں ، سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں تیز رفتاری، غیر معمولی لگن اور محنت سے کام کرنے والوں کو ’’ شہباز شریف کے شاگرد‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے ‘‘۔ خبر میں کہا گیا تھا کہ ’’میاں شہباز شریف نے 20/20 کام کر کے چینیوں کو بھی ہرادِیا ہے‘‘۔ اِس پر مَیںنے 28 مارچ کو ’’چین میں ’’شہباز پاکستان‘‘ کے شاگرد کے عنوان سے کالم لِکھ کر خوشی کا اظہار کِیا لیکن یہ بھی پوچھا تھا کہ ’’خادمِ اعلیٰ اور چینیوں میں ایک دوسرے کو ہرانے کا دوستانہ میچ کب ہُوا؟‘‘ میرے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے خادمِ اعلیٰ کے چینی شاگردوں کے لئے اُن کا ’’ فلسفۂ چھلانگ‘‘ عام کرتے ہُوئے کہا تھا؎
’’ شاگرد پیشہ ، چِین میں رہتا ہے چونگؔ چانگ
اعلانِ حق ہے ، خادمِ اعلیٰ کا ، مِثل بانگ
اُستاد کی طرح ، تُو بھی ، بڑے کام کر ، عزیز!
مَیں نے چھلانگ ماری ہے ، تُو بھی لگا چھلانگ‘‘
مَیں چین میں خادمِ اعلیٰ کے شاگردوں کے بارے میں کالم لِکھ کر چین تو نہیں جاسکا لیکن جب مَیں عارضۂ جگر کے علاج کے لئے دو بار لندن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہا تو وہاں میری کئی "Male & Female"ڈاکٹروں اور نرسوں سے گفتگو تو ہُوئی مَیں اُن سے پوچھنا چاہتا تھا کہ ’’کیا آپ بھی خادمِ اعلیٰ پنجاب کے شاگردوں میں شامل ہیں‘‘ لیکن میرے وکیل بیٹے انتصار علی چوہان نے انتہائی ادب سے مجھے منع کردِیا۔ اب مَیں کیا کرتا؟ مجھے 1991ء اور 1994ء میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد اور وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی میڈیا ٹیم کے رکن کی حیثیت سے چین جانے کا موقع مِلا۔ اُن دنوں چین میں خادمِ اعلیٰ کے شاگردوں کا ظہور نہیں ہُوا تھا ۔
مَیں 1973ء میں صحافیوں کے وفد کے ساتھ اور 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رکن کی حیثیت سے جمہوریہ تُرکیہ گیا ۔ اُن دنوں بھی خادم اعلیٰ پنجاب تُرکیہ میں ’’ہر دلعزیز‘‘ نہیں تھے مَیں نے دونوں بار استنبول کے طوپ کاپی میوزیم میں پیغمبر انقلابؐ اور خُلفائے راشدین ؓکے نوادرات دیکھے ۔ اُن میں دو دھاری تلوار ’’ ذُوالفقار ‘‘ بھی تھی جو پہلے حضور اکرم ؐکے استعمال میں رہی اور پھر حضورؐ نے وہ حضرت علی مرتضیٰؓ کو عطا کردی تھی ۔مجھے دونوں بار قاہرہ میں سُلاطین مملوک کے زیر سایہ آخری عباسی خلِیفہ المُتوکل کی بے بسی پر بہت ترس آیا جِس نے تمام تبرکات تُرکیہ کے سُلطان سلیم اوّل کے سپرد کر دئیے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارا کوئی حُکمران وہ تبرکات دیکھتا ہے تو اُسے خلِیفہ المُتوکل کی بے بسی یاد آتی ہے کہ نہیں؟ بہرحال ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے جمہوریہ تُرکیہ میں خادمِ اعلیٰ کی مقبولیت کے بارے میں کہا کہ؎
’’بات کرنے میں بہت ہی Cool اور معقُول ہیں
تُرکیہ میں خادمِ اعلیٰ بہت مقبُول ہیں‘‘