اسلام آباد (بی بی سی+ نیٹ نیوز) پنجاب کی پہلی صنفی مساوات رپورٹ 2016 میں پنجاب کمیشن نے پیش کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبے میں زندگی کے قریباً ہر شعبے میں صنفی عدم مساوات موجود ہے۔ 2014 ء میں 15 سال سے بڑی لڑکیوں کی شرحِ خواندگی 58 فیصد تھی، یہی شرح لڑکوں میں 67.6 فیصد تھی۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کے درمیان بھی شدید عدم مساوات پائی جاتی ہے۔شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں دونوں صنفوں کے معاوضوں میں بھی واضح فرق موجود ہے۔ پنجاب میں عام مرد کی اوسط تنخواہ 17078 روپے ماہانہ، عورت کی صرف 3645 روپے ماہانہ ہے۔دیہی اور شہری پنجاب میں 25 سے 60 سال کی عمر میں مردوں کی کام کرنے کی شرح 90 فیصد سے زیادہ ‘ عورتوں یہ شرح 18 تا 22 فیصد ہے۔ 46 فیصد عورتوں کو جو معاوضہ ملتا ہے وہ کم از کم آمدنی کے زمرے میں آتا ہے، یعنی پانچ ہزار روپے، صرف 7.7 فیصد مردوں کو یہ کم از کم معاوضہ ملتا ہے۔سرکاری اداروں، خاص طور پر قانون کے شعبے میں عورتوں کا تناسب بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب میں عورتوں کی اوسط عمر بھی مردوں سے کم ہے، 67.2 برس کے مقابلے میں 66.5 برس۔ اس کی بڑی وجہ عورتوں کے تولیدی مسائل ہیں۔پاکستان بھر میں عورتیں اور لڑکیاں خاص طور پر تشدد کی زد میں رہتی ہیں، جس میں گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر ہونے والا تشدد شامل ہے۔پنجاب میں 2012 تا 2015 میں غیرت کے نام پر 922 قتل ہوئے، تیزاب گردی کے 110 واقعات دیکھنے کو ملے، چولہے سے جلنے کے دس واقعات پیش آئے۔ صرف 2015 ہی میں زیادتی کے 2701 کیس درج ہوئے۔ 2014ء میں جنسی ہراسانی کے محتسب کو 12 جب کہ 2015 میں 34 شکایات موصول ہوئیں۔عورتوں کے خلاف تشدد کی بلند شرح، بشمول کام کرنے کی جگہوں پر ہراسانی، کی وجہ سے عورتیں اپنے تحفظ کی خاطر کام کرنے سے کتراتی ہیں، خاص طور پر اگر انہیں دور دراز کا سفر کرنا ہو۔حکومت نے عورتوں کے تحفظ کے لیے اقدامات تو کیے ہیں، لیکن معاشرے کی رجعت پسند سوچ کی وجہ سے عورتوں کو طاقت بخشنے کے اہداف پورے نہیں ہو رہے‘ اس کے ساتھ ساتھ عورتوں اور لڑکیوں کے لیے آئینِ کے مطابق عوامی مقامات اور قومی زندگی میں محفوظ ماحول فراہم نہیں ہو سکا۔اس تناظر میں حکومتِ پنجاب نے ان سرکاری افسران کو صنفی مساوات کی تربیت دی جو عورتوں کی مساوات اور تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم لڑکے اور لڑکی کا فرق سکول کے زمانے ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔اسی طرح عورتوں کو اگر کام کرتے دکھایا بھی جاتا ہے تو وہ عموماً ’’خدمات‘‘ والے شعبے ہوتے ہیں مثلاً ڈاکٹر اور استاد۔ عورتوں کو پائلٹ، انجینئر، سائنس دان یا بزنس وومن کے روپ میں نہیں دکھایا جاتا، حالانکہ ان شعبوں میں بھی ان کی بڑی تعداد کام کر رہی ہے۔