جاڑا آ گیا ہے

Dec 15, 2017

پھر سے بدلتا موسم انگڑائی لے رہا ہے،،، دن آہستہ آستہ پیچھے ہٹ رہا ہے اور رات اپنے پائوں پھیلاتی جا رہی ہے۔ مگر پاکستان کے عوام کا ہمارے حکمرانوں نے جو رشوت ، غربت ، مہنگائی ، لوڈشیڈنگ ، گیس کی شارٹیج ، لاقانونیت اور بے روز گاری سے جو ڑ دیاہے۔ اس پر موسم کے آنے جانے کا کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ حکومت ِ وقت خواہ کوئی بھی ہو جمہوری ہو یا مار شل لاء بس عوام کو اچھے دنوں کی تاریخ پر تاریخ دے رہی ہے۔ 

جانے کب ہوں گے کم اس عوام کے غم،
ہر روز مشکل ہر روز ایک نیا ستم
اس میں عوام بیچاری صرف اس قدر قصور وار ہیں ، کہ جو بھی آیا اس نے باتوں سے بہلایا۔ اور کوئی چوائس نہ ہونے کی وجہ سے عوام انہیں لوگوں کو سلیکٹ کرتی رہی۔ جانے اپوزیشن میں رہ کر جو پولیٹیکل فورسز دن رات عوام کے غم میں دبلے پتلے ہوجاتے ہیں ، پاور میں آتے ہی ایسی کون سی عینک لگا لیتے ہیں کہ ہر شے انہیں تروتازہ ہری بھری نظر آنے لگتی ہے۔ عوام خوش حال نظر آنے لگتی ہے، پورا ملک دنیا میں سب سے زیادہ ترقی کرتا ہوا نظر آنے لگتاہے۔ وہ صرف ان کی سنتے ہیں جو ان کی مرضی کے بول بولتاہے۔ یاان کا من پسند راگ الاپتاہے۔ بے قابو میڈیا ان کو زہر لگنے لگتا ہے۔ غربت ختم کرنا ان کے مفادات میں ہوتاہی نہیں۔ وہ غریب کو ہی ختم کرنے پر تل جاتے ہیں۔
تعلیم کا نعرہ لگا کر سیٹ پر بیٹھ کر تعلیم اتنی مہنگی کر دیتے ہیں کہ غریب گلے میں ڈگری تو خیر نہیں مگر جہالت کا طوق پہن لیتاہے۔ پھر جیسے ہی حکومت اپنے کرتوتوں کی وجہ سے زمین بوس ہو کر اپوزیشن کا لباس پہن لیتی ہے، پھر عینک اتر جاتی ہے اور وہ سب کچھ عوام کی عینک سے دیکھنے لگتی ہے۔ پھر صبح شام عوام کے نام کی مالا جپتی ہے ، انہیں عوام کے درد کے علاوہ کوئی درد ہی نہیں رہتا ۔
میرے ہر درد کی دوا ہے عوام
ان کی خدمت کے سوا اب نہیں مجھے کوئی کام
تو میرے بھائیو ! سردیاں آگئی ہیں ۔ گیس ، سی این جی میں مزید شارٹیج کے لیے تیار ہوجائیے۔ ابھی سے اپنے آپ کو ونٹر ریڈی کرلیجئے ،کیونکہ سب کچھ آپ کو خود ہی کرناہے۔ حکومت کو قرض لینے، عدالتوں میں اپنے کیے کی پیشیاں بھگتنے سے فرصت نہیں ، اپوزیشن سڑکوں پر ہے۔ ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
پاکستان انسانی تاریخ کا عجوبہ ہے کہ روئے زمین پر بسنے والے کلمہ گو مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ کلمہ توحید کی بنیاد پر برصغیر پاک و ہند کے جغرافیہ میں اسلامیان عالم کے قلعے کے طور پر ایک ریاست وجود پذیر ہو اور مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ کی تعلیمات اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کی راہ نمائی میں خوابوں کی یہ سر زمین حاصل کر لی گئی ہے۔ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد کی روشنی میں قرار داد مقاصد پاس کر کے ہمیشہ کے لیے راہ نما خطوط مہیا کر دئیے اور ربع صدی بعد ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کا متفقہ آئین پاس کرا کر قومی ترقی کے لیے راستہ ہموار کیا۔ مگر اگلے الیکشن میں بھٹو کی دھاندلی نے ترقی کا راستہ روک دیا اور ضیا ئی آمریت بنام اسلام کا دور شروع ہوگیا۔ اس دور میں پنجاب کے گورنر جیلانی نے ایک بڑا قومی جرم یہ کیا کہ لوہے کے ایک تاجر سے ذاتی مفاد ات حاصل کر کے بٖغیر کسی میرٹ کے اس کے بیٹے کو گھر سے اٹھا کر پنجاب کی وزارت کی کرسی پر بٹھا دیا۔ بظاہر یہ ایک سادہ سی بات اپنے اندر قومی تباہی کا ایٹم بم لیے ہوئے تھی ۔ اب یہ شخص پارلیمنٹ میں فروکش مجرموں سے لیڈری کا تمغہ اور خصوصی ترمیمی فضائل و فوائد حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ یہ جان کر بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ جیلانی کے ہاتھوں پلانٹ کیا گیا نام نہاد سیاستدان ابھی تک قوم کی جان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ادھر بھٹو کے انجام کے بعد اس کی بیٹی کو اقتدار ملااور یوں بھٹو کا قرض ووٹروں نے اتار دیا۔ مگر اب اس مرحومہ کے سسرال نے اپنا نام بدل کر مجاوری کا نیا باب کھول دیا ہے اور شوہر صاحب نے ’’ آئینی تحفظ‘‘ کی آڑ میں میں پانچ سال پورے کیے اور اب چاہتے ہیں کہ میری نسل نئے سرے سے اقتدار میں آ جائے، کہ میرا بیٹا بھٹو کا نواسہ ہی تو ہے۔ تاریخ پوچھتی ہے کہ بھٹو کا کوئی پوتا ،پوتی ،بیٹی ہے یا نہیں؟ اسی دوران میاں نواز شریف اپنی بیٹی کو ملک کا سربراہ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ تحریک پاکستان سے باخبر اہل علم، اہل سیاست ،اہل صحافت ، اہل خطابت اور اہل قلم سے دست بستہ گذارش ہے کہ وہ اس مملکت اور اس کے بائیس کروڑ انسانوں پررحم کریں اور پر زور آواز اٹھائیں۔ کیا قائداعظم نے یہ ریاست نواز شریف اور زرداری جیسے لوگوں کو راہ نما بنانے کے لیے قائم کی تھی۔ ویسے بھی جمہوریت تو نئے سے نئے منتخب قائدین کے آتے رہنے کا نام ہے۔ ریاست پر پکے ڈیرے تو بادشاہی نظام میں لگائے جاتے ہیں۔ جمہوریت میں ہر گز ہر گز نہیں۔

مزیدخبریں