امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز یروشلم کو یہودیوں کی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر ایک ایسا عالمی دھماکہ کیا ہے جو نہ صرف فلسطین کی مسلمان ریاست کی آزادی کی سالمیت اور بقاء کیلئے بلکہ پوری مسلم دنیا کے لئے ایک خوفناک وارننگ ہے جو نائن الیون سے بھی زیادہ تباہ کن ہے۔ اس کے ردعمل کے طور پر مسلم ممالک کے علاوہ پوری دنیا نے جس شدت سے احتجاج کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھی امریکن صدر کے اعلان پر عالمی احتجاج کا نوٹس لیا ہے۔ او آئی سی نے فوری طور پر اپنے سربراہان کا اجلاس طلب کیا جس میں شرکت کیلئے پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنے تمام ملکی معاملات چھوڑ چھاڑ کر تشریف لے گئے ہیں۔ پورے پاکستان میں احتجاجی جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا ملک گیر احتجاج جاری ہے جس کے دوران مال روڈ لاہور پر امریکی جھنڈا بھی نذر آتش کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں 13 دسمبر بروز بدھ وار پاکستان نیشنل فورم نے بھی اپنے ایمرجنسی اجلاس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کی ریاست کا دارالخلافہ قرار دینے کے اعلان کو اقوام متحدہ کے آئین اور قانون کے برخلاف ایک تاریخی اور تباہ کن بلنڈر قرار دیا جس کے عالمی امن پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بظاہر دیکھنے میں ایک عام انسان بھی فوری طور پر بلاتاخیر یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ یہ اعلان مسلمانوں کی ریاست فلسطین کو درپیش سنگین مسائل حل کرنے اور علاقہ میں امن بحال کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں بلکہ بیت المقدس کو یہودی ریاست کا دارالحکومت ہونے کا واشنگٹن سے اعلان کرکے امن کی اقوام متحدہ کی طرف سے کی جانے والی اب تک کی تمام کاوشوں پر پانی پھیر کر علاقے کے امن کو سبوتاژ کیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صورتحال میں عرب لیگ کے ممبر ممالک اور او آئی سی کے مسلمان ممالک اپنی حالیہ بلائی گئی کانفرنس میں کیا مثبت معنی خیز اور ٹھوس فیصلے کرتے ہیں جبکہ انتہائی افسوس ناک کڑوا سچ یہ ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر امریکی صدر نے انتہائی مکاری سے ایک نیا ورلڈ ایشو پیدا کر دیا ہے۔ فلسطین کے مسائل حل کرنے کی بجائے عرب ممالک کی باہمی تفریق بلکہ باہمی جنگ اور او آئی سی کے ممالک کے درمیان سیاسی اقتصادی تجارتی اور دفاعی وحدت کا فقدان بذات خود مسائل کی جڑ ہے۔ اس لئے اسرائیل یا امریکہ کا کسی بھی ایشو پر مقابلہ کرنے کیلئے اسلامی دنیا میں جس تعاون اور یکجہتی کی ضرورت ہے تو جب اس کی روح غائب ہے تو اسلام کی مخالف قوتیں اس سے فائدہ اٹھانے کی ہرممکن کوشش کیوں نہ کریں گی۔ یہ عمل جس کا بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر نے اعلان کیا ہے صدیوں پرانا مغرب کا خواب ہے۔ ایک زمانہ تھا اسلامی سلطنت یورپ کے مشرق میں ویانا اور آسٹریا کی ریاست تک پھیلی تھی اور یورپ کے جنوب مغرب میں سپین تک پھیلی ہوئی تھی۔ چنانچہ کلیسہ یہودی اسلام سے اس کا بدلہ چکانے کی کوشش میں صدیوں سے CRUSADE میں مصروف ہے جو آج بھی جاری ہے۔ فورم نے متفقہ طور پر اس رائے کا اظہار کیا کہ امریکہ اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ نے بیت المقدس پر قبضہ کرنے کی جرأت صرف اس بناء پر کی ہے کہ مسلم دنیا کے58 ممالک آپس میں باہمی انتشار کا شکار ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران پورے کرئہ ارض کے بیشتر وسائل پر قابض ہونے کے باوجود اور پورے کرئہ ارض کے سب سے زیادہ سٹرٹیجک جغرافیائی خطہ ارض پرکنٹرول رکھنے کے باوجود اپنی بے پناہ طاقت سے کیوں بے خبر اور لاپروا ہوتے ہوئے غیروں پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی سے کروڑوں بلین ڈالر اپنی دولت کو اسلامی دنیا کے عوام کی بہتری اور ترقی کی طرف توجہ دینے سے مجرمانہ غفلت اور لاپروائی کیوں؟ پاکستان نیشنل فورم نے ترکی کے صدر جناب طیب اردگان کی طرف سے بلائی گئی ہنگامی اجلاس سربراہی کانفرنس کو سراہا۔ بعض ممبران نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آبادی‘ قدرتی وسائل اور دنیا کی واحد مسلم نیو کلیئر پاور ہونے کے ناطے اسلام کا مضبوط قلعہ ہونے کی حیثیت میں کاش یہ سربراہی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوتی اور پوری دنیا کو ایک طاقتور پیغام دیا جاتا کہ یروشلم میں جنگ کے شعلے بھڑکا کر پوری دنیا کے امن کو خطرہ میں نہ ڈالا جائے۔ اگر تمام مسلم ممالک اپنا سرمایہ مغربی بینکوں سے نکال کر اسلامی دنیا میں منتقل کرنے کا اعلان کریں اور اسی طرح تمام عرب اور دیگر مسلم ممالک اپنے سفیروں کو امریکن صدر کے یروشلم کے بارے میں اپنا اعلان واپس لینے تک اپنے سفیر واشنگٹن سے واپس بلا لیں تو مجھے یقین ہے کہ ہمارے ان جرأت مندانہ اقدامات کی چین اور روس کے علاوہ تیسری دنیا کے کئی اور ممالک بھی عالم اسلام کا ساتھ دیں گے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جانی پہچانی وجوہات کی بناء پر جن کو تفصیل سے قلمبند کرنا ضروری نہیں پاکستان کے انٹرنل سیاسی‘ اقتصادی‘ مالی‘ معاشی اور خصوصاً امن و امان کے حوالے سے پاکستان اندرونی و بیرونی سازشوں کی بناء پر جن میں دہشت گردی اور ہر قسم کی انتہاء پسندی کے علاوہ کرپشن اور گڈگورننس کے فقدان کا اس قدر دور دورہ ہے کہ ہم اسلامی سربراہی کانفرنس بلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ایک انٹرنیشنل کرکٹ میچ کرانے کیلئے قانون نافذ کرنے والی ساری ایجنسیاں بمعہ پولیس اور رینجرز کے چکر میں آجاتی ہیں۔ فیض آباد کا دھرنا ہی دیکھ لیجئے کہ بالآخر امن بحال کرنے کیلئے حکومت کو فوج کی مدد لینا پڑی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم کئی سال سے حالت جنگ میں ہیں اور پارلیمنٹ نیشنل ایکشن پلان کو منظور کرنے کے بعد اس کے 75 فیصد آرٹیکلز پر عملدرآمد کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں جن میں پرائیویٹ سطح پر مذہبی مدرسوں کو ریگولیٹ کرنا شامل تھا جس حکومت سے اتنا چھوٹا سا مسئلہ بھی حل نہ ہو سکے سوچنے کی بات ہے کہ وہ اسلامک سربراہی کانفرنس کیسے بلائے گی؟