بھارتی آرمڈ فورسز میں بے چینی

ایک مشہور ملٹری تھنکر کا قول ہے : ’’میدان جنگ میں فتح حاصل کرنے کیلئے ’’جذبہ‘ ‘ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔‘‘ اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ماننی پڑتی ہے کہ فوج کی تعداد، فوج کی تربیت،ہتھیاروں کی نوعیت ،لیڈر شپ کی صلاحیت اور جنگی منصوبہ بندی وغیرہ فتح کیلئے سب بہت ضروری ہیں لیکن ان سب سے زیادہ ضروری فوج کا ’’جذبہ‘‘ ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جنگ کی قسمت کا فیصلہ میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ جنگ کی ابتدا سے بھی پہلے لڑنے والے سپاہیوں کے ذہنوں میں ہو جاتا ہے۔جو فوج پورے اعتماد اور فتح کا جذبہ لیکر میدان جنگ میں داخل ہوتی ہے وہ اکثر کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ جنگی تاریخ میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں چھوٹی فوجوں نے بڑی فوجوں کو محض جذبہ کی بنا پر شکست دی۔ اس میں سب سے بڑی مثال اسلامی جنگوں کی ہے جہاں اسلامی مجاہدین نے بے سروسامانی کی حالت میں بھی اپنے سے کئی گنا بڑی فوجوں کو شکست دی۔ معزز قارئین! زمانہ امن میں جب فوج کو تربیت دی جاتی ہے تو ہر کمانڈر کی کوشش ہوتی ہے کہ فوج کا ’’مورال‘‘ بلند رکھا جائے۔ ’’مورال‘‘ کا انحصار کئی باتوں پر ہے اور اچھے فیلڈ کمانڈر کیلئے ضروری ہے کہ ہر وہ تدبیر اور ہر وہ کوشش بروئے کار لائے جس سے فوج کا’’ مورال‘‘ بلند رہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ فوجی بھی انسان ہیں۔ انکی ضروریات بھی ہیں۔ انکی فیملیز اور بچے بھی ہیں اور وہ معاشرے کا حصہ بھی ہیں۔ وہ معاشرے کی ہر اونچ نیچ اور خصوصاً مہنگائی سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ جنگلوں،صحرائوں اور برفانی علاقوں میں رہتے ہیں۔ شدید ترین موسم کا مقابلہ کرتے ہیں۔ کئی کئی ماہ چھٹی نہیں ملتی۔ بھوک کاٹنی پڑتی ہے۔ اکثر اوقات بیوی،بچوں اور والدین سے نہ صرف دور رہنا پڑتا ہے بلکہ ان سے رابطہ بھی منقطع ہوجاتا ہے ۔ اکثر اوقات جوانی میں ہی موت یا معذوری قبول کرنا پڑتی ہے جن سے فیملی کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ان حالات میں بڑے سے بڑے دل والا انسان بھی ہمت ہار جاتا ہے ۔ لہٰذا فوجی کمان اپنے سولجرز کیلئے زندگی کی ان تمام ضروریات کا خیال رکھ کر ہی فوجیوں کے ذہنوں پر اثر اندار ہو سکتی ہے۔ انہیں ہر پہلو سے مطمئن رکھنا فوجی کمان کا اولین فرض ہے۔پاکستان فوج پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان مصائب سے نہیں گھبراتا ۔ مسلمانوں کیلئے ’’حصولِ شہادت‘‘ ہی سب سے بڑا ’’جذبہ ‘‘ ہے۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ پاکستان فوج میںذات پات کی لعنت نہیں ہے۔ افسران بھی مسلمان ہیں جو سولجرز کے ساتھ رہتے ہیں۔ انکے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں ۔سب سے بڑھ کر انکے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں لیکن بھارتی فوج میں ایسا نہیں ہے۔

بھارتی فوج دنیا کی دوسری بڑی فوج شمار ہوتی ہے لیکن بھارتی فوج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ذات پات کا شکار ہے جس وجہ سے بہت سی برائیاں فوج میں سرایت کر گئی ہیں۔ ہندو اپنے آپکوبرتر انسان سمجھتے ہیں اور یہ احساس برتری بعض حالات میں باقی مذاہب کے عقائد کے متضاد ہے۔ان حالات میں باہمی اعتماد اور یگانگت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟پھر ہندو معاشرے کے اندر بھی طبقات موجود ہیں ۔ شودر یا دلت معاشرے کا گھٹیا ترین طبقہ سمجھا جاتا ہے جب کہ برہمن اعلیٰ ترین ذات ہے۔ دلت کے ہاتھ کا پکا کھانا بھلا برہمن کیسے کھا سکتا ہے۔کوئی دلت کسی برہمن کی ہمسری نہیں کر سکتا۔طبقات کا یہی فرق فوج میں بھی موجود ہے۔ ایک دلت یا مسلمان افسر کے تحت کسی برہمن کا کام کرنا یا دلیت کا حکم ماننا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔
کئی وجوہات کی بناپر کچھ عرصے سے افواج ہند میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے ۔فوج میں بھگوڑوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ حکم عدولی کے واقعات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں جوانوں نے آفیسرز پر گولی چلا دی یا ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ پھر خود کشی اور ہم جنس پرستی کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور ایسے واقعات کسی بھی پروفیشنل فوج کیلئے زہر قاتل کا درجہ رکھتے ہیں۔پے در پے واقعات نے افواج ہند کے اعلیٰ افسران کو پریشان کر دیا ہے۔ لہٰذا آرمڈ فورسز ہیڈ کورٹر نے کچھ عرصہ پہلے فوج پر ایک سٹڈی کرائی تو حیران کن حقائق سامنے آئے۔یہ سٹڈی پچھلے پانچ سال یعنی2012سے لے کر2017پر مشتمل ہے۔ اس سٹڈی میں یہ حقیقت ثابت ہو گئی ہے کہ افواج ہند کا ’’مورال‘‘ اس وقت کم ترین درجہ پر ہے۔ اس میں فوج ، ائیر فورس اور نیوی تینوں برانچز شامل ہیں۔ جوانوں میں موٹیویشن اور’’ جنگی جذبہ‘‘ بہت حد تک مفقود ہو چکا ہے اور فوج نفسیاتی طور پر کئی پریشانیوں کا شکار ہے جس کی کئی وجوہات سامنے لائی گئی ہیں۔
سب سے پہلی اور بڑی وجہ تو ہندو توا پر عمل اور ذات پات کی سوچ ہے۔ کسی چھوٹے یا نیچ ذات کے آفیسر کے تحت اعلیٰ ذات کے ما تحت کا سروس کرنا نفرت کا سبب بنتا ہے جو بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے اور فوجی ڈسپلن پر بلا واسطہ طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔پھر افسران میں بھی اچھی قیادت کی خصوصیات نا پید ہیں۔ وہ اپنے جوانوں کے ساتھ نہ گہرا رابطہ رکھتے ہیں نہ انہیں وہ عزت دیتے ہیں جو فوجی زندگی اور فوجی ڈسپلن کا لازمی جزو ہیں۔ جوان جو آگے والی پوسٹوں یا شورش زدہ علاقوں میں حالات کا مقابلہ کررہے ہیں انہیں خشک راشن پر رکھا جاتا ہے جو اس راشن کے عادی نہیں اور وہ بھی پیٹ بھر کر نہیں ملتا۔ ایسی شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ آفیسرز جوانوں کا راشن خود کھا جاتے ہیں ۔انہیں شدید موسم کے مطابق لباس بھی فراہم نہیں کیا جاتا تو یوں زندگی تکلیف دہ بن جاتی ہے ۔جوانوں کو لمبے عرصے تک چھٹی نہیں ملتی۔ جس وجہ سے انہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس وجہ سے جوانوں میں مایوسی پھیلی ہے اور فوج کے اندر ہم جنس پرستی پروان چڑھی ہے۔
جو افسران یا جوان میدان جنگ میں مارے جاتے ہیں ان کی فیملیز کی کوئی دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ فیملیز حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جاتی ہیں بلکہ انکے حصے کے پلاٹ یا فلیٹ وغیرہ بھی سیاستدان ہتھیا لیتے ہیں۔ سنئیر افسران کا رویہ سخت اور کسی حد تک غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے جس وجہ سے فوج میں خود کشیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ فوج میں ویلفیئر کا عنصر تکلیف دہ حد تک غائب ہو چکا ہے۔ 2012میں خود کشیوں کی تعداد 60تک سالانہ تھی جبکہ 2017میں یہ سو سے زیادہ ہو چکی ہے۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق جنگ یا بارڈر اپریشنز کی وجہ سے ہونیوالی اموات کی نسبت بارہ گناہ زیادہ اموات خود کشیوں اور سڑکوں پر حادثات کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ پچھلے سال یہ اموات 1,480تھیں جبکہ امسال ابھی تک 1,060 اموات ہو چکی ہیں۔ تقریباً دو بٹالین جوان ہر سال کسی فوجی اپریشن کے بغیر موت کی نذر ہو جاتے ہیں جو کہ عسکری قیادت کیلئے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔2014سے لیکر اب تک 330 فوجی خود کشیاں کر چکے ہیں جن میں9آفیسرز اور19جونئیر کمیشنڈ آفیسرز بھی شامل ہیں۔اگر ان حالات کا تدارک نہ کیا گیا تو بھارتی فوج کی ’’ جنگی صلاحیت‘‘ با لکل ختم ہو جائیگی۔

ای پیپر دی نیشن