اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + وقائع نگار خصوصی + نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے فاٹا انضمام کا بل ایجنڈے سے ہٹانے کے معاملے پر ایک بار پھر ایوان سے واک آئوٹ کیا اور حکومت پر واضح کیا فاٹا کے لوگوں کو جب تک ان کا آئینی حق نہیں دیا جاتا اس وقت تک ایوان میں نہیں بیٹھیں گے۔ قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا 70 سال سے فاٹا پاکستان کا حصہ ہے، ایف سی آر ایک جاہلانہ قانون ہے، پاکستان میں رہتے ہوئے انہیں ان کے حقوق نہیں ملتے، حکومت غفلت کا مظاہرہ نہ کرتی تو یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوتا، قائمہ کمیٹی سے آنے والا بل حکومت نے ایجنڈے پر لاکر واپس لے لیا، یہ پارلیمنٹ پاکستان کی ہے، عوام کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے ہم کسی گورے کے تابع نہیں‘ ہم فاٹا کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں، ہم ان کے حوالے سے انگریز‘ انڈین یا افغان تھیوری ماننے پر تیار نہیں، ہم پارلیمنٹ کو ربڑ سٹمپ نہیں بننے دیں گے، فاٹا کے 95 فیصد لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ہم نے صوبے میں ضم ہونا ہے۔ فاٹا کے لوگوں کو جب تک حق نہیں دیا جاتا ہم اس ایوان میں نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے کہا زراعت کا مسئلہ اہم ہے اس پر بات ہونی چاہیے تاہم ایسے مسائل روز ہوتے ہیں‘ فاٹا اہم معاملہ ہے ہم اس پر واک آئوٹ کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی اپوزیشن ارکان واک آئوٹ کر گئے۔ بعد ازاں نکتہ اعتراض پر محمود خان اچکزئی نے کہا میرے بارے میں کہا جارہا ہے میں فاٹا انضمام کی مخالفت کر رہا ہوں، یہ میرا حق ہے، دو روز قبل آرمی چیف سے بہت بڑا وفد ملا اس نے کہا ہماری مرضی کے بغیر اس کا کوئی فیصلہ کرنے سے گریز کیا جائے، قبائلی عوام کی مرضی سے فیصلہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا فاٹا پارلیمنٹ کی ڈومین نہیں، صدر آج اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایف سی آر کے خاتمہ کا اعلان کریں تو ختم ہوجائے گا۔ ایک سپریم کونسل بنائی جائے اور اس سے کہا جائے جمہوری اور قابل قبول سسٹم بنا کردیں۔ فاٹا کا اپنا گورنر ہوتا تو بہتر تھا۔ آفتاب شیر پائو نے کہا حکومت کا یہ کارنامہ ہوگا کہ اس بل کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ حکومت بتائے وہ کرنا کیا چاہتی ہے۔ اس پر بات چیت ہو سکتی ہے‘ ہم فاٹا کے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ آفتاب خان شیرپائو بات کر رہے تھے کہ اس دوران تحریک انصاف کے رکن علی محمد خان نے کھڑے ہوکر زور زور سے چلانا شروع کردیا جس پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے مائیک کے بغیر شور شرابے پر انہیں تاکید کی وہ رولز اور پارلیمانی روایات کی پاسداری کریں۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن کے واک آئوٹ کے بعد شاہ جی گل آفریدی نے کورم کی نشاندہی کر دی۔ گنتی کرنے پر کورم پورا نکلا تاہم شاہ جی گل آفریدی نے کھڑے ہو کر احتجاج کیا کورم پورا نہیں۔ ڈپٹی سپیکر نے انہیں ہدایت کی سٹاف کے ساتھ مل کر گنتی کر لیں گنتی کے بعد کورم پورا نکلا اور ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کی کارروائی جاری رکھی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں گزشتہ روز بھی فاٹا اصلاحات بل پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ وقائع نگار خصوصی کے مطابق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا سپیکر قومی اسمبلی نے اسمبلیوں کے مستقبل کے حوالہ سے اندر کی خبر دی ہے،حالات ہمیں بھی مشکوک لگ رہے ہیں ملک میں دیکھا تو جا رہا ہے کبھی راستے روکے جا رہے ہیں بند کئے جا رہے ہیں لڑائیاں چل رہی ہیں جن حالات اور خطرات سے پاکستان گزر رہا ہے وہ ہر آدمی سمجھ رہا ہے اس میں ہمیں آنکھیں کھول کر آگے چلنا چاہیے۔ ایاز صادق کو حالات کا زیادہ احساس اور سمجھ ہے ایک سیاسی جماعت دباؤ ڈال رہی ہے فوری انتخابات نہ ہوئے تو خانہ جنگی ہو گی۔ جن خطرات سے ملک گزر رہا ہے سٹیک ہولڈرز کو آنکھیں کھول کر چلنا ہو گا۔ امریکی اقدامات کے بعد پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہوں گے تمام جماعتوں کو مل کر جمہوریت کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ صباح نیوز، اے پی پی، این این آئی کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان بائیکاٹ ختم کر کے ایوان میں واپس آ گئے۔آفتاب شیرپائوکی تقریر کے دوران تحریک انصاف نے ہنگامہ کیا، پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا دراصل حکومت فاٹابل نہیں لانا چاہتی، پنجاب اور سندھ کے گنے کے کاشتکاروں کا براحال ہے، حکومت اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہے، اب تو آرمی چیف نے بھی حمایت کر دی ہے اب کیا مجبوری ہے؟۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا وہ دو افراد یہاں نہیں جن کی وجہ سے فاٹا کا معاملہ رکا ہوا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے سچ بولنا شروع کردیا ہے، اب ملک بچانے کی ایک ہی راہ قبل ازوقت انتخابات ہیں، مارچ میں استعفوں کی بہارآرہی ہے، حکومت کی جانب سے وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا فاٹا اصلاحات کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہیں، اعلی عدلیہ کی حدود کا دائرہ وسیع کرنے کا معاملہ بھی ہے۔ قبائلی علاقہ جات میں اصلاحات کا آغاز موجودہ حکومت کا کریڈٹ ہے جسے کوئی نہیں چھین سکتا، معاملے پر پوائنٹ سکورنگ سے گریز کیا جائے۔ بل لانے میں چند ایک روز لگ سکتے ہیں لیکن یہ عمل واپس نہیں ہو گا۔ آج جمعہ کو وزیر اعظم کے ساتھ پارلیمانی لیڈروں کی ملاقات متوقع ہے۔ فاٹا انضمام کے بل پر واک آئوٹ پر اپوزیشن جماعتیں تقسیم ہوگئیں‘ اپوزیشن جماعتوں نے واک آئوٹ کیا تاہم ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان ایوان میں واپس آگئے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے رکن عامر ڈوگر اور پیپلز پارٹی کی رکن سابق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا بھی کارروائی کا حصہ بن گئیں۔ فاٹا سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی اس معاملے پر تقسیم ہوگئے۔کامران خان اور ساجد طوری ایوان میں موجود رہے۔ بعدازاں اجلاس آج کیلئے ملتوی کر دیا گیا ۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں فاٹا اصلاحات بل پیش نہ ہونے پر اپوزیشن نے چوتھے روز بھی واک آئوٹ کیا۔ نوائے وقت نیوز کے مطابق قومی اسمبلی نے نادار اور زیر حراست خواتین فنڈ ایکٹ 1996ء میں مزید ترمیم کرنے اور انضمامی ریاستوں کے حکمران خصوصی سہولیات و مراعات کا خاتمہ (ترمیمی) بل 2017ء کی منظوری دے دی۔ اپوزیشن ارکان کی غیر حاضری پر ان کی ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ارکان اسمبلی نے وفاق اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا ہے وہ گنے کے کاشتکاروں کو درپیش مسائل حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں ٗ زمیندار تباہ ہو رہا ہے، شوگر ملز نہ چلانے والوں کو گرفتار کیا جائے جبکہ وفاقی وزیر قومی فوڈ سکیورٹی سردار سکندر حیات بوسن نے دعویٰ کیا ہے سندھ حکومت گزشتہ چار سال سے گنے کے کاشتکاروں کو طے شدہ قیمت نہیں دے رہی‘ گندم کی درآمدی ڈیوٹی ختم نہیں کی جائیگی۔ پیپلز پارٹی کے رکن سید نوید قمر نے نکتہ اعتراض پر کہا صوبے کہہ رہے ہیں ابھی تک سبسڈی جمع نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے رکن نواب یوسف تالپور نے کہا وفاقی حکومت کو بھی اپنے حصے کی سبسڈی دینی چاہیے۔ سردار سکندر حیات نے کہا گنے کا معاملہ صوبائی ہے‘ کسانوں کے استحصال پر صوبائی حکومتیں اقدامات اٹھائیں۔ یہ معاملہ ای سی سی میں بھی اٹھائیں گے ٗوزیراعظم سے بھی بات کریں گے ٗ وزیر مملکت برائے پٹرولیم جام کمال خان نے کہا ہے خطے میں پاکستان کی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں سب سے کم ہیں‘ قائمہ کمیٹی پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز زیر غور لاکر کوئی تجویز پیش کرتی ہے تو اس کا خیر مقدم کریں گے۔ انہوں نے بتایا بھارت میں پٹرول کی قیمت فی لٹر 118 روپے‘ سری لنکا میں 87‘ بنگلہ دیش میں 113، نیپال میں سو روپے ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر 39 فیصد سے زائد ٹیکسز نہیں۔ قومی اسمبلی میں مختلف قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹس پیش کر دی گئیں۔