یہ 1974ء کا زمانہ تھا جب میں نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لیا۔ ہاسٹل میں قیام کا اتنا شوق تھا کہ سب سے پہلی درخواستوں میں ایک درخواست میری تھی۔ اگرچہ ڈھنگ کاکمرہ تو نہ مل سکا پھر بھی گورنمنٹ کالج لاہور کی طرف والی اس ونگ (WING) میں کمرہ الاٹ ہوا جسے ہاسٹل کے مکین اپنی لغت میں"کمیاںدی ونگ"کہتے تھے۔ اس کے بعد دیگر مکین آئے گئے،رونق میں اضافہ ہوتارہا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اضافہ ایک اکائی کی صورت اختیار کرگیا۔ ہر مزاج اور طرح طرح کی دلچسپیوں پر مشتمل طلباء سے گروپ بنتے گئے جووقت کے ساتھ ساتھ ایسے پختہ ہوئے کہ اب قبروں تک ساتھ جاتے ہیں۔بھر پور جوانی ،گھر کی پابندیوںسے آزادی ،لاہور کی رنگا رنگی ،معقول جیب خرچ ،مچلتی امنگیں،لہراتی ترنگیںایشیاء سبزھے ،ایشیاء سرخ ہے کے نعروں میں سردجنگ کے اثرات ،ان سب نے مل کر ہم خیال دوستوں کے بہت سے گلدستے ترتیب دیئے۔میراشوق سیاست کے علاوہ فنون لطیفہ اور شعر وادب سے بھی تھا اس لئے قدرتی طور پر ایسے ہی مزاج کے طلباء میرے ہم نفس بنے۔ ان دنوں فلموں اور سٹیج ڈراموں میں اداکار مسعود اختر کا بڑا نام تھا۔مسعود اختر روزانہ شام کو ہاسٹل میں میرے کمرے میں آجاتے، بڑے مجلس آراء بذلہ سبخ ،شعروسخن اور تصوف کے آدمی تھے۔ان کے آتے ہی کمرہ بھرجاتا اور رات گئے تک طرح طرح کے موضوعات پر ہم لوگ گفتگو کرتے پھر گوجرانوالہ سے میرا ایک پرانا دوست جب فلم اور سٹیج پر قسمت آزمائی کرنے ایک جوڑے میں ملبوس لاہور آیاتو ماسوائے میرے کمرے کے اس کے پاس رہنے کی کوئی جگہ تھی اور نہ ہی روزمرہ کے دیگر لوازمات پورے کرنے کا کوئی سامان مگر اللہ کام چلاتا رہا۔ ایک دن اس کی محنت اور صلاحیت رنگ لائی اور"مستانہ"کے نام سے لاہور کے سٹیج کاایک بڑا سٹار بن گیاقدرت نے شہرت کے علاوہ دولت سے بھی خوب نوازا۔پنجاب یونیورسٹی میں میرا اصل میدان توسیاست ہی تھا مگر زندگی کی دیگر ہماہمی اور دوستوں کی سنگت ہمرکاب رہی تو ایسے دوست مل گئے جو سیاست کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی دلچسپی لیتے ہوئے کبھی فلمی سٹوڈیوز کے پرستان کبھی شعر وادب کے گہواروں اور زیادہ ترسیاست ہی کے میدان کے میدان کے خیموں چائنیز لنچ ہوم،کافی ہائوس۔پاک ٹی ہائوس،شیزان ریسٹورنٹ،786ریسٹورنٹ، سلاطین ریسٹورنٹ،کیپری ریسٹورنٹ، لارڈز ریسٹورنٹ، انڈس ریسٹورنٹ اور کیفے شیراز کے علاوہ ٹمپل روڈ اور پرانی انار کلی کے بوسیدہ اور"ترقی پسند"چائے خانوں میں بھی چلے جاتے۔ تب ان ترقی پسندوں کے حلیئے بھی بڑے قابل رحم ہوتے۔ لمبی قلمیں،کبھی نہ پھٹنے والے کپڑے "سوفینی"کی پینٹ،ایسے ہی ایک اور "مضبوط" کپڑے "کیرالین"کی قیمض، پالش سے بے نیاز جوتے ،بال اور ڈاڑھیاں ایسے بڑھی ہوئیں گویا کسی صحرا کا ایک طویل سفر کرکے اس ریسٹورنٹ تک پہنچے ہوں ،ایک کپ چائے کیلئے گھنٹوں انقلاب کی باتیں کرتے اور جاگتے میں خواب دیکھتے جیسے برف رت میں گلاب تلاش کررہے ہوں ۔یہ سب ایشیاء سرخ کی ذیلی پیداوار تھے جس میں دوسری طرف اسلامی جمیعت طلباء تعلیمی اداروں میں ہنگامے اٹھاتی رہی۔ معافی چاہتا ہوں بات ذراکسی اور طرف جانکلی۔ ذکرہورہا تھا لاہور پنچاب یونیورسٹی لاء کالج، اس کے ہاسٹل اور حبیب نواز ٹوانہ،نذیر غازی۔ میاں عارف، طارق بشیر چیمہ،چوہدری اعظم ارشد اعوان اور چند غیر سیاسی مگر ادبی لوگوں کے علاوہ دوایسے دوستوں کا جو اس وقت ملک کے اہم ترین ادارے سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں سے ایک اس کا سربراہ بھی ہے نام پھر کبھی سہی۔ہم لوگ ریسٹورنٹوں،کافی ہائوس اور چائے خانوں میں نواب اکبر بگٹی ،آغاشورش کاشمیری،حبیب جالب،سیف الدین سیف،منیر نیازی،مشیر کاظمی،سعید آسی،منظور گیلانی، نواب حسن تاج،راجہ ذوالقرنین سے ملتے تو گھنٹوں علم وہنر جمہوریت اور سوشلزم پر بھی بات ہوتی کہ یہ اس وقت کا ایک "علمی فیشن"تھا۔جب میں نے لاء کالج کے بعد پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری کے انتخاب میں حصہ لیا تو حلقہ احباب زیادہ وسیع ہوگیا اجمل شاہ ،میاں امین الدین خواجہ فلاح کے علاوہ ہر طرح کے دوست اس میں شامل ہوئے تو ایک نئی کہکشاں بن گئی۔ ایک حلقہ وہ بھی تھا جسے تحقیق وجستجو کا اتنا شوق تھا کہ وہ اپنے اپنے فن کے ماہرین کے پاس خود چل کرجاتے،جھک کرملتے اور پہروں ان کی محفلوں سے علم وفن کشید کرتے۔ ان چند لوگوں میں میں بھی شامل ہوتا۔ ہم کبھی فلم سٹوڈیو میں جاتے تو وہاں سے بھی حزیں قادری جیسے یگانہ روز گار پنجابی شاعر اور کہانی نویس کو تلاش کرلیتے۔ فلمی ہیروئنوں سے ہمیں اپنے معاشی حالات کی بناء پر کوئی دلچسپی نہیں تھی۔کیسی کیسی منزلیں ہوتی تھیں ہماری۔
منظور جھلا
Dec 15, 2018