پاکستان تو پہلے ہی اندرونی ِ اور بیرونی طور پر معاشی اور سیاسی صورتحال میں کئی گمبھیر چیلنجوں کا سامنا کررہاہے ، اِس پر بعض اپوزیشن کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما حکومت پر بیجا تنقید کر کے حکومت کے لئے مشکلا ت پیداکررہے ہیںاور جمہوری سسٹم کو سبوتاژ کرنے کی راہیں ہموار کرکے بھی دعویدار ہیں کہ یہ جمہوریت کا حُسن ہے جبکہ سر سے اُونچا ہوتا پانی بتارہاہے کہ حزب اختلاف کی جمہوری حُسن کی آڑ میں حکومت پر بیجا تنقید کہیں آمریت کی آمد نہ ثابت ہوجائے۔ اَب اِس صُورتِ حال میں معاشی اور سیاسی لحاظ سے ہچکولے کھاتی حکومت خود کو سنبھالے بھی تو کیسے؟جب اقتدار سے محروم حزبِ اختلاف کی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما احتساب کی گرفت کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر حکومت مخالف حربے استعمال کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور حکومت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع ہی نہیں دے رہے ہیں‘ جس کا مُلک کے اندر اور باہربیٹھے وطن دُشمن عناصر کو فائدہ پہنچ رہاہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اپوزیشن کی جماعتیں اور قومی ادارے رواں حکومت کو سنبھلنے اور کام کرنے کا موقع دیتے اور اپنے سیاسی اور ذاتی اختلافات بالائے طاق رکھتے اور حکومت کو کام کرنے دیتے ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی اپنی ذمہ داری یوں ادانہ کی جس کا اِن سے ملکی آئین اورقانون تقاضا کرتاہے،۔یہ وہ نکتہ ہے، جس پر اپوزیشن جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں اور بعض اداروں میں ابھی تک بیٹھے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سربراہان کو چاہیئے کہ وہ حکومت مخالف اپنی روش بدلیں، صرف اور صرف وطن کی تعمیر و ترقی کے لئے ایک اکائی بن کر اپنا مثبت اور تعمیری کردار کریں۔ جیسا کہ دنیا کے دیگرتہذیب اور ترقی یافتہ ممالک میں اپوزیشن جماعتیں اور اداروں کے سربراہان اپنی ذمہ داریاں مُلک اور قوم کی ترقی کے لئے اداکرتے ہیں۔ اِدھرجب گزشتہ دِنوں ہماری حکومت کے وزرا‘ وزیراعظم عمران خان کے زیرصدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں اپنے سو روزہ کاموں کا جائزہ پیش کررہے تھے تو دوسری طرف امریکا نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا الزام پاکستان کے سرڈالتے ہوئے،پاکستان کو بلیک لسٹ کردیا،جس پر امریکی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ واشنگٹن نے اِس حوالے سے پہلے ہی اسلام آباد کو پچھلے سال واچ لسٹ میں رکھاتھا، جبکہ مزید کچھ اِس قسم کی بھی اطلاعات ہیں کہ امریکا اور امریکی کانگریس کے ایک اہم ذمہ دار وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کانگریس کی پاکستان متعلق مذہبی آزادی پر مرتب رپورٹ پر تحفظات کا بھی اظہار کیاہے اور سعودی عرب، چین ، ایران، شمالی کوریا، برما، سوڈان، تاجکستان اور ترکمانستان کو بھی بلیک لسٹ میں شامل کردیاہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِس قسم کی جلد بازی میں کی گئی فرسودہ اور ناقص حکمتِ عملیوں کے وجہ سے بہت سے جنگی اور اقتصادی محاذوں پر تنہا ہوتے امریکاکے اِس قسم کے اقدامات سے امریکا اپنے دوستوں سے زیادہ دُشمنوں میںاضافہ کرے گا، جوکہ آگے چل کر خود امریکا کے لئے بھی شدید مشکلات اور پریشانیوں میں اضافے کا سبب ہوسکتاہے ۔ یقینااِس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بے جاامریکی دباؤکے باعث ساتھ چھوڑتے پاکستان سے خائف امریکا سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہے،اِس لئے کہ امریکا سمجھ چکاہے کہ اَب پاکستان امریکی عتاب اور دباؤوالے مدار سے نکلتا جارہاہے،تب ہی امریکا حسبِ روایت اپنی روش کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کواپنے دباؤ میں لانے کی ہر ممکن کوششوں میں لگا ہواہے،اِسی لئے پچھلے دِنوں امریکی صدر نے اپنی خودساختہ سوچ وفکر کے نظریئے کے تحت پاکستان کو مذہبی آزادی کی مبینہ خلاف ورزیوں اور اقلیتوں سے نامناسب رویئے پردباؤبڑھاتے ہوئے اِسے ’’ بلیک لسٹ ممالک کی فہرست میں شامل کردیا‘‘امریکی صدر کاپاکستان مخالف یہ اقدام واضح طور پر بتارہاہے کہ امریکا کس قدر بوکھلاہٹ کاشکار ہوچکاہے جبکہ پاکستان نے اِتنا ہی تو کہاہے کہ اَب پاکستان کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بننے گا، اور نہ ہی کسی کی جنگ اپنی زمین پر آئندہ لڑے گا ‘‘ بس اِتنا کہے پر ہی امریکا آگ بگولہ ہوگیااور پاکستان مخالف اقدامات اُٹھانے کے لئے ایسے سخت احکامات جاری کررہاہے کہ اَب واضح طور پر نظر آنے لگا ہے کہ امریکا اور پاکستان کی راہیں بہت جلد جدا ہونے کو ہیں ۔اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکا کا پاکستان کو اقلیتوں پر مذہبی آزادی پر پابندی کے حوالے سے بلیک لسٹ میں شامل کرناکھلم کھلا سیاسی طور پرپاکستان کو اپنے دباؤ میں رکھنے کے مترادف ہے ، آج اگر امریکا پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے سے پہلے اپنے اور بھارت کے نام نہاد سیکولر نظا م اور اسرائیل کی طرف دیکھ لیتا تو اِسے پتہ چل جاتا کہ پاکستان میں آباد اقلیتوں کوتو اسلامی تعلیمات اورآئین کے مطابق تمام مذہبی آزادی حاصل ہے، مگر خود امریکا، اسرائیل اور بھارت میں مسلمانوں ، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ کتنا بُرا سلوک روارکھا جاتاہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکا کو اقلیتوں کی مذہبی آزادی کی پابندی نہ اپنی زمین پر نظر آتی ہے اور نہ ہی اسرائیل اور بھارت میں اقلیتوں پر لگائی گئیں پابندیاں دکھائی دیتی ہیںجوکہ امریکا کی کھلی ہٹ دھرمی ہے جبکہ پچھلے دِنوں اِس امریکی اقدام پر پاکستان نے امریکی سفارتکار کو دفترخارجہ طلب کیا یوں پاکستان کے شدیداحتجاج کے بعد امریکاپاکستان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہوااورامریکی یون ٹرن کے باعث پاکستان کوبلیک لسٹ سے استثنی ملا۔
امریکاکی بوکھلاہٹ اور یوٹرن!!
Dec 15, 2018