پی آئی سی حملہ دل دہلا دینے والا، متاثرین کیساتھ کھڑے ہیں: چیف جسٹس

اسلام آباد (چوہدری اعظم گِل) چیف جسٹس نے کہا ہے کہ لاہور واقعہ پر افسوس ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا پی آئی سی حملہ ناقابل یقین اور دل ہلا دینے والا واقعہ ہے متاثرین کیساتھ کھڑے ہیں، توقع ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہیں ہونگے۔ ماڈل کورٹس کے ججز کی کارکردگی متاثر کن ہے نہ نظام بدلا اور نہ قانو ن لیکن 25 سے تیس اضلاع میں فوجداری اور منشیات کے مقدمات صفر ہو چکے ہیں۔ عہدہ سنبھالنے سے پہلے کہا تھا میرا بلوچ خون کہتا ہے کچھ نہ کچھ کرنا ضرور ہے، سپریم کورٹ میںپانچ سال میں التواء نہ دیکر25 سال کے زیر التواء فوجداری مقدمات نمٹائے۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پنجاب انسٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) واقعہ پر اظہار افسوس کر تے ہوئے کہا پی آئی سی واقعہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے اس لئے ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جس سے کیس پر کوئی اثر پڑے۔ ضلعی عدالتوں کے نظام سے عوام مایوس ہو چکے تھے اپنی حالت بدلنے کا ارادہ کر لیا کیونکہ اللہ بھی اس وقت تک کسی کے حالات نہیں بدلتا جب تک وہ خود نہ بدلے۔ موجودہ قوانین اور وسائل میں رہتے ہوئے ہی بہتری کے راستے نکالے سب سے پہلے فوجداری ٹرائل میں تاخیر کی وجوہات کی نشاندہی کی جن میں ایک ساتھ پچاس پچاس مقدمات کا چلنا بھی بہت مسئلہ تھا، برطانیہ میں آج مقدمہ کریں تو ڈیڑھ سال بعد کی تاریخ ملے گی لیکن جب تاریخ ملتی ہے تو کیس چلتا ہے اور فیصلہ بھی ہوتا ہے گواہان پیش کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی جو مدعی پر ڈال دی گئی تھی، اب گواہان کو پیش کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اب وکیل کو ٹرائل میں مصروفیت پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں التواء مل جاتا ہے ٹرائل میں عدم پیشی کا بہانہ کیس شیڈیولنگ سرٹیفکیٹ سے ختم کر دیا اب لوگ درخواستیں دے رہے ہیں کہ انکے مقدمات ماڈل کورٹس میں منتقل کیے جائیں۔ ماڈل کورٹس کے ججز ساتھ ساتھ فیصلہ لکھتے رہتے ہیں تاکہ تاخیر کا شکار نہ ہو۔ جب سے سپریم کورٹ میں آیا تب سے پہلے صرف میں برا بنتا تھا کہ سپریم کورٹ میں التواء نہیں دیتا تھا اب یہ سلسلہ چل پڑا ہے۔ سپریم کورٹ میں مقدمات کاالتواء نہیں ملتا۔ جہلم جیسے بڑے شہر میں قتل کے زیرالتواء مقدمات ختم ہونا حیران کن ہے، اب جو بھی کیس آتا ہے اسکا فیصلہ پانچ سے سات دن میں ہو جاتا ہے۔ ماڈل کورٹس پر تنقید کی وجہ لوگوں کو ماڈل کورٹس کی کارکردگی پر یقین نہ ہونا ہے، ایک مرتبہ ملاقات میں پاکستان بار کونسل کے اعلیٰ وفد کو کہا اپنے نمائندے ماڈل کورٹس میں بٹھا دیں جس کے بعد چھ ماہ سے ماڈل کورٹس کے حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا دو ساتھی ججز کے ہمراہ ویڈیو لنک پر ماڈل کورٹس پر چھاپہ مارا، جس پروکلاء کی بحث اور ججز کی کارروائی دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ایسے لگ رہا تھا کہ ماڈل کورٹس کے ججز ہائیکورٹس کے ججز ہیں؛ اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے؛ ہمارا کام بس کمر باندھنا ہے، اب سپریم کورٹ میں بھی اپیل آتے ہی مقرر ہو جاتی ہے۔ نیت ٹھیک ہو تو اللہ کی مدد آپکے ساتھ ہوگی، جو کرنے والا کام ہے کر گزریں جہاں بھی ہوتا ہوں ماڈل کورٹس کے معاملے پر وٹس ایپ پر ہمیشہ دستیاب رہتا ہوں۔ حکومت کو بتائیں اربوں روپے کے جرمانے ماڈل کورٹس نے کیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ماڈل کورٹس کے اس عرصے کے دوران صرف تین مقدمات کی منتقلی کی درخواستیں آئیں جن کی وجوہات بھی قابل ذکر نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ما ڈل کورٹس کی وجہ سے سپریم کورٹ تک درخواستیں آنے کے سلسلے میں کمی واقع ہو ئی ہے، ضمانت کے مقدمات میں پراسیکیوٹر صرف اتنا کہتے ہیں مقدمہ ماڈل کورٹ میں جا چکا ہے تو پھر عدالت کہتی ہے اس کاتو چند دن میں فیصلہ ہو جانا ہے، اب اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کی منتقلی سمیت دیگر درخواستیں آنے کا سلسلہ بھی کافی رک چکا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...