حکومت 31جنوری تک مستعفی ہو ورنہ یکم فروری کو لانگ مارچ کی تاریخ دینگے: پی ڈی ایم، اعلان لاہور

لاہور‘ اسلام آباد (نیوز رپورٹر+وقائع نگار خصوصی  ) اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے  پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس کے بعد اعلان لاہور کے نام سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری  کر دیا جس پر مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نوازسمیت اتحاد میں شامل   تقریباً 11 جماعتوں  کے رہنمائوں  نے  دستخط  کئے  ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے اسے اعلان لاہور قرار دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہم عوام سے  عہد کرتے ہیں  کہ  اس تاریخ ساز خواب کو جو مملکت پاکستان کے بسنے والوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کا ضامن ہے، شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے مل کر جدوجہد کریں گے۔ ایک ایسا پاکستان تشکیل دیں گی جہاں آئین کی حرمت مقدم ہو، ریاست کے تمام انتظامی ادارے ایک منتخب انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے تابع ہوں جو قومی پالیسی سازی کا منبع ہو۔ عدلیہ آزاد ہو اور بغیر کسی دبائو کے فیصلے کرے۔ میڈیا کی آزادی اظہار رائے کو تحفظ حاصل ہو۔ تمام منتخب ادارے عوام کے سامنے جوابدہ ہوں اور عوام کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ اپنے آزادانہ حق رائے دہی کے ذریعہ انہیں منتخب اور رخصت کرسکیں۔ پاکستان کو  قائداعظم کے خواب کی تعبیر بنانے کیلئے تمام جماعتیں عہد کرتی ہیں کہ وہ ملکی سیاست کو اچھی جمہوری حکمرانی دیں گی۔ ملک کو موجودہ بحران سے نجات دلانے کیلئے ضروری ہے کہ اس سلیکٹڈ ہائی برڈ نظام کو فی الفور رخصت کیا جائے اور ملک میں آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعہ حقیقی نمائندہ حکومت قائم کی جائے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 8دسمبر 2020کو اسلام آباد میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہی اجلاس میں جو بنیادی مقاصد طے کئے گئے اس کے تسلسل میں مینار پاکستان کے سائے میں پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں جو پاکستان کے اسلامی وفاقی پارلیمانی آئین پہ یقین رکھتی ہیں انہوں نے 13دسمبر 2020کو اسی تاریخی میدان میں جہاں 23مارچ1940کو مسلمانان جنوبی ایشیا نے قائداعظم کی قیادت میں اپنے لئے آزاد ریاست کا خواب دیکھا تھا، پاکستان کے عوام سے عہد کیا ہے کہ وہ اس تاریخ ساز خواب کو جو مملکت پاکستان کے بسنے والوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کا ضامن ہے، شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے مل کر جدوجہد کریں گے ، ایک ایسا پاکستان تشکیل دیں گی جہاں آئین کی حرمت مقدم ہو۔ اعلامئے میں کہا گیا کہ آج پاکستان کے عوام بالخصوص غریب متوسط طبقے اور نوجوان بدترین مہنگائی، بے روزگاری اور سماجی عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کی ابتلائیں روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہیں جس کی ذمہ دار سلیکٹڈ حکومت ہے۔ اس سے پہلے کہ ملک بالکل دیوالیہ اور عوام پس جائیں، ملک کو موجودہ بحران سے نجات دلانے کیلئے ضروری ہے کہ اس سلیکٹڈ ہائی بریڈ نظام کو فی الفور رخصت کیا جائے اور ملک میں آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعہ حقیقی نمائندہ حکومت قائم کی جائے جو معاشی اصلاح احوال کیلئے فوری اور دور رس اقدامات سے ملک میں ایسی سماجی انصاف پہ مبنی معاشی ترقی کی حکمت عملی بروئے کار لائے جس سے خوددار، خودمختار اور خوشحال پاکستان کا خواب حقیقت بن سکے ۔ پی ڈی ایم جماعتیں عہد کرتی ہیں کہ وہ عوام کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے، ملک کو قرضوں کے جال سے خلاصی ،غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری ، ناخواندگی اور بیماریوں سے نجات دلانے، سماجی اور معاشی ناہمواری دور کرنے اور ملکی معیشت کو جدید سائنسی وتکنیکی واطلاعاتی، صنعتی انقلاب کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھائیں گی۔ کسی بھی قوم کی طاقت اور صلاحیت کا دارومدار اس کی مستحکم سیاست، توانا معیشت، آزاد خارجہ پالیسی  اور مضبوط دفاع کے مربوط ڈھانچے پر ہوتا ہے۔ پاکستان جس کی اساس آئینی اور جمہوری اور مضبوط دفاع کے مربوط ڈھانچے پرہوتا ہے۔ پاکستان کی اساس آئینی اور جمہوری بنیاد پر رکھی گئی تھی اسے 73سالوں سے مستحکم نہیں ہونے دیا اور قومی صلاحیت کی مربوط طاقت کو کمزور کیا۔ اس سے قبلپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی مرکزی قیادت کی پی ڈی ایم کے حوالے سے اہم مشاورت اجلاس لاہور میں ہوا ۔جس میں مختلف رہنمائوں نے آئندہ کی مشاور ت کی اور اس پر تبادلہ خیال کیا۔ اجلاس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز سمیت  پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری شریک ہوئے۔ ان کے ہمراہ سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، شیری رحمان موجود، نیئربخاری اور پی پی پی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ بھی موجود تھے ۔مسلم لیگ ن کے وفد میں مشاہدخاقان عباسی، احسن اقبال، پرویز رشید، سعد رفیق، رانا ثنااللہ، محمد زبیر اور مریم اورنگزیب شامل شامل تھے ۔جمعیت علمائے اسلام کے وفد میں مولانا غفور حیدری، مولانا عطاء  الرحمان اور صاحبزادہ سعید احمد شامل تھے۔ جمعیت علمائے پاکستان کی نمائندگی مولانا اویس نورانی نے کی پاکستان نیشنل پارٹی کی نمائندگی سینیٹر طاہر بزنجو نے کی۔پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی نمائندگی محمود خان اچکزئی اور عثمان خان کاکڑ نے کی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی نمائندگی اختر مینگل نے کی۔ عوامی نیشنل پارٹی کی نمائندگی میاں افتخار حسین نے کی۔: جمعیت اہل حدیث کی نمائندگی ساجد میر نے کی: قومی وطن پارٹی کی نمائندگی احمد نواز جدون نے کی۔ پی ڈی ایم نے حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دیدیا۔ پی ڈی ایم اجلاس کے بعد سربراہ مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ 31 دسمبر تک پی ڈی ایم کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اپنے استعفے پارٹی قیادت کو پیش کر دیں۔ حکومت کو واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ 31 جنوری تک حکومت  مستعفی ہو جائے حکومت مستعفی نہیں ہو گی تو یکم فروری کو ہمارا اجلاس ہو گا۔ یکم فروری کو اجلاس میں لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ کارکن آج ہی سے لانگ مارچ کی تیاریاں شروع کر دیں گے۔ تمام سربراہان نے پی ڈی ایم اعلامیے پر دستخط کر دیئے ہیں اب کوئی بات نہیں ہو گی۔ یکم فروری کو بتائیں گے کہ لانگ مارچ کب کرنا ہے۔ سٹیئرنگ کمیٹی نے صوبوں کو لانگ مارچ کیلئے جو شیڈول دیئے ہیں وہ برقرار رہیں گے۔ لاہور میں تاریخی اور فقید المثال اجتماع منعقد ہوا۔ مولانا فضل الرحمان نے الزام عائد کیا کچھ چینلز نے جلسہ کے حوالے سے غلط خبریں چلائیں۔ سٹیئرنگ کمیٹی کے عہدیدار اپنے اپنے صوبہ میں میزبان کمیٹی کے سربراہ ہوں گے۔ عوام آج ہی سے لانگ مارچ کی تیاری شروع کر دیں۔ عہدیدار لانگ مارچ کی تیاریوں کی نگرانی کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اس موقع پر کہا کہ پوری زندگی میں ایسا جلسہ نہیں دیکھا۔ ہمارے کارکنوں‘ ایم این ایز نے دن رات کام کیا جس بات کا سرے سے وجود ہی نہیں۔ چند چینلز نے جھوٹی خبریں چلائیں ہیں۔ ان چینلز کو وقت دے رہی ہوں کہ ایسے پروپیگنڈے سے باز آ جائیں۔ میں نے ایم پی ایز‘ ایم این ایز سے گلہ کیا کہ جلسہ گاہ چھوٹی رکھی گئی۔ میرے کارکنوں نے دن رات کام کیا اور میں نے جلسے میں ان کی کوششوں کو سراہا۔ نہیں پتہ کہ پنڈال کی کرسیاں کہاں چلی گئیں۔ سردی کے باوجود لوگوں نے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر خطاب سنا۔ مجھے کوئی کرسی نظر نہیں آئی۔ جلسے میں اتنی سردی لگی کہ میری طبیعت خراب ہو گئی۔ جلسے کو دیکھ کر حکومت میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنی مستقل حیثیت اور اپنا اپنا منشور رکھتی ہیں اور اسی بنیاد پر الیکشن لڑتی ہیں۔ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ہم ان سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ استعفوں‘ اسمبلی تحلیل کے اعلان کے بعد کوئی تجویز آئے تو پی ڈی ایم فیصلہ کرے گی۔ اس حکومت میں پاکستان کے دفاع کی صلاحیت نہیں۔ واضح رہے حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ ہم ایک مشترکہ نظریئے پر دستخط کر چکے ہیں۔ مشترکہ مقاصد کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اب مذاکرات کا وقت گزر چکا۔ عمران خان کے استعفے کا وقت ہے ہم جو بھی فیصلہ کریں گے اکٹھے کریں گے اب مارچ کرنے کا وقت ہے۔ پارٹی میں سینئر رہنما اپنے رائے دیتے ہیں جب فیصلہ ہو جاتا ہے تو اعتزاز احسن بھی مانیں گے۔ شہباز شریف سے ان کی والدہ کی تعزیت کیلئے جا رہا ہوں یہ ہماری روایت کا حصہ ہے۔ میں نے درخواست دی ہے دیکھیں اجازت ملتی ہے یانہیں سب فیصلے ہم ملکر کریں گے۔ پی ڈی ایم پلیٹ فارم سے کریں گے۔ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلے کا بھی پابند ہوں اور اعتزاز احسن بھی پابند ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...