اسلام آباد(وقائع نگار)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے وفاقی دارلحکومت کے مرغزار چڑیا گھر سے دو ہمالین ریچھوں کی عدم منتقلی سے متعلق کیس میں وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کی طرف سے کاون کے بعد دو ہمالین ریچھوں کو بیرون ملک منتقل کرنے کی یقین دہانی پر درخواست نمٹادی۔گذشتہ روز سماعت کے دوران غیر ملکی ماحولیاتی ایکسپرٹ ڈاکٹر عامر خلیل دیگر ایکسپرٹس کے ساتھ عدالت پیش ہوئے،چیف جسٹس نے کہاکہ کیا فیصلہ ہوااس میں ؟جس پر وائلڈ لائف وکیل نے کہاکہ بورڈ نے ریچھوں کو باہر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا،ہم ہمالین ریچھوں کو مخصوص وقت کے لیے باہر بھیج رہے ہیں،ہم پاکستان میں سنچوری بنائیں گے تو یہ واپس لے آئیں گے،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ عدالت صرف ان جانوروں کا بھلا چاہتی ہے، اس عدالت نے ہمیشہ بورڈ کو فیصلہ کرنے کا چانس دیا ہے،ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے کہ پاکستان جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھتا ہے،وزیر اعظم پاکستان کی جانوروں کے ساتھ تصاویر آج کے اخبارات میں شائع ہوئی ہیں،ہم بھی ان جانوروں کوقدرتی ماحول میں دیکھنا چاہتے ہیں،یہ عدالت بورڈ کے فیصلے کو سراہتی ہے، جولائی 2019 سے اب تک جانوروں کی تکلیف کا کون ذمہ دار ہے؟،وزارت موسمیاتی تبدیلی کو چارج اس لیے دیا گیا تھا کہ چڑیا گھر کے معاملے پر سیاست ہو رہی تھی،سوال یہ ہے کہ کیا وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اپنی ذمہ داری نبھائی؟ اس عدالت نے جانوروں کی منتقلی کا حکم اس لیے دیا کیونکہ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہ تھا،ریچھوں کے دانت نکالے گئے ہیں، انہوں نے بہت کچھ برداشت کیا، عدالت کی واحد دلچسپی صرف بے زبان جانوروں کی ویلفیئر ہے،?1.6ارب روپے ورلڈ کلاس سینکچری کے قیام کے لیے مختص کیے گئے،وزارت موسمیاتی تبدیلی کے وکیل نے کہاکہ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے بورڈ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کبھی نہیں کی،عدالت نیوکیل وزارت موسمیاتی تبدیلی کو عدالتی آرڈر پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ 5 جولائی 2019 کے عدالتی فیصلے کو پڑھیں، اس ساری میں تفصیلات موجود ہیں، بدقسمتی سے چڑیاگھر کے شیر اور شیرنی کو مارا گیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ غلط معلومات فراہم کی گئی کہ اس کیس میں عدالت کو انٹرسٹ ہے، اس عدالت کو کیس میں انٹرسٹ نہیں، جانوروں کی حقوق میں انٹرسٹ ہے،چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ ان تمام عدالتی فیصلوں کو مئیر اسلام آباد نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا،اس کیس میں توہین عدالت کیسسز بھی زیر سماعت ہیں،جولائی 2019 سے جانوروں کی تکلیف کا زمہ دار کون ہوگا؟جانوروں کی تکلیف کا صرف وفاقی حکومت اور وزارت موسمیاتی تبدیلی زمہ دار ہیں،اس کیس پر صرف سیاست ہوتی رہی،جب دو شیروں کو مارا گیا تو ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا، مگر کسی نے زمہ داری نہیں لی،وفاقی حکومت اور وزارت موسمیاتی تبدیلی نے ہی اس عدالت کو بتایا کہ ہمارے پاس سنچوری نہیں، حکومت اور وزارت موسمیاتی تبدیلی نے ہمالین ریچھوں کو اردن بیجھنے کا کہا،اس عدالت نے نہیں کہا تھا کہ ہمالین ریچھوں کو جارڈن بھیج دیں،معاملہ زیر سماعت ہے اور بورڈ نے ریچھوں کو بھیجنے سے انکار کردیا،وکیل وزارت موسمیاتی تبدیلی نے کہاکہ انشاء اللہ اب سب کچھ ٹھیک ہوگا، یہ ایک ٹرینڈ شروع ہوگیا،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ عدالت صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کے فیصلے کو سراہتی ہے،وکیل موسمیاتی تبدیلی نے کہاکہ عدالتی فیصلے کے بعد مائنڈ سیٹ تبدیل ہوگئی،چیف جسٹس نے کہاکہ ہمالین ریچھوں کے دانت نکالے گئے ہیں، انکو بہت تکلیف دی گئی،پیسوں کے خرچ ہونے سے پہلے لوگوں کو ٹرین کریں، تاکہ اچھی طرح دیکھ بھال کرسکے،وزارت موسمیاتی تبدیلی ملک بھر کے چڑیاگھروں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے،اس ملک میں جہاں پر بھی جانور تکلیف میں ہونگے، انکی زمہ داری وزارت موسمیاتی تبدیلی کی ہے،اس عدالت کو وائلڈ لائف منجمنٹ بورڈ پر بھروسہ ہے،چڑیا گھر غیر قانونی ہے،چڑیا گھر کی وجہ سے جانوروں کے حقوق سلب کئے گئے،یہ عدالت ماحولیاتی ایکسپرٹ زیڈ بی مرزا کی قدر کرتی ہے مگر کاون ہاتھی کے کیس میں انکا فیصلہ غلط تھا،ہمالین ریچھوں کی زمہ داری لیں تو وہ یہاں رہ سکتیہیں،بورڈ نے اچھا فیصلہ کیا اور یہ عدالت اس فیصلے کو سراہتی ہے،اس فیصلے پر ہمیں فخر کرنے دے اور اس کو دنیا کے لیے مثال قائم کرنے دے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ آجکل لوگ ٹیکنالوجی سے انٹرٹین ہوتے ہیں نہ کہ پنجروں میں بند جانوروں سے،عدالت اس سے متعلق آرڈر جاری کرے گی،عدالت نے درخواست نمٹا دی۔