بھارت میں کسی بھی سطح کے انتخابات ہونے ہوں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) عوام میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف کھل کر زہر اگلنا شروع کردیتی ہے۔ یہ انتہا پسند ہندوؤں کا بھی پسندیدہ موضوع ہے، لہٰذا وہ بی جے پی کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردیتے ہیں اور یوں یہ جماعت انتخابات میں عوام سے ہمدردی حاصل کرلیتی ہے۔ بی جے پی کی مودی سرکار نے بھارتی میڈیا کے بڑے حصے کو بھی اس کام کے لیے اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے، سو بہت سے اینکرز گلے پھاڑ پھاڑ کر پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے صحافتی اخلاقیات و اقدار کو بھی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ اسی حکمت عملی کو کام میں لاتے ہوئے نریندر مودی 2014ء سے اب تک وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہیں۔ پاکستان اور اسلام دشمنی کے معاملے میں بی جے پی نہ صرف راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے متاثر ہے بلکہ اکثر وہ اسی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ مودی سرکار کے دور حکومت میں ہندوؤں انتہا پسندوں کو ملک بھر میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے جو شہ مل رہی ہے اس کے پیچھے بھی یہی نکتہ کارفرما ہے۔
دو روز پہلے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر الزامات لگائے اور کہا کہ پاکستان دہشت گردی اور دیگر بھارت مخالف سرگرمیوں کو فروغ دے کر بھارت کے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے جو کچھ کہا حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔ بھارت ایک عرصے سے پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیاں کرا رہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر کلبھوشن سدھیر یادیو ہے جو بھارتی خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انیلسس ونگ (را) کے ایما پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرا رہا تھا اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے اسے بلوچستان سے گرفتار کیا۔ کلبھوشن یادیو نے اپنے اعترافی بیان میں پاکستانی اداروں کو بتایا کہ وہ کن کن علاقوں میں دہشت گردی کی کون کون سی وارداتیں کرا چکا ہے اور وہ کیسے مختلف افراد اور گروہوں کی سرپرستی کر کے پاکستان میں حالات کو بگاڑ رہا تھا۔
ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار نے سوموار کو بھارتی وزیر دفاع کے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں اہم ریاستوں میں انتخابات کے دوران بی جے پی یہی رویہ اپناتی ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔ انہوں نے دھمکی آمیز رویہ اپنایا اور بی جے پی ہمیشہ سے تاریخی حقائق کو مسخ کرتی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کو اترپردیش میں انتخاب جتوانے کے لیے بھارتی وزیر دفاع نے اشتعال انگیز زبان استعمال کی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بی جے پی کے رہنماؤں کو مشورہ ہے کہ اپنی اندرونی سیاست میں پاکستان کو زیر بحث لانے سے گریز کریں۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مثالیں بھارت کے اندر اور اس کے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں موجود ہیں۔ پاکستان نومبر 2020ء میں بھارتی ریاستی سرپرستی میں پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی پر ڈوزیئر پیش کر چکا ہے۔
ایک طرف بھارتی وزیر دفاع پاکستان پر الزامات لگارہے ہیں تو دوسری جانب بھارت کی غاصب سکیورٹی فورسز کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں سفاک کارروائیاں جاری ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائی میں سوموار کو ضلع سری نگر میں دو کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق، بھارتی فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں نے نوجوانوں کو ضلع کے علاقے رنگریٹ میں محاصرے اور تلاشی کی ایک مشترکہ کارروائی کے دوران شہید کیا۔ جعلی مقابلے میں نوجوانوں کی شہادت پر علاقہ مکینوں نے شدید احتجاج کیا۔ احتجاجی مظاہرے میں شریک مرد و خواتین اور بچوں نے بھارت مخالف نعرے لگائے۔ انتظامیہ نے علاقے میں راستے بند کر کے انٹرنیٹ سروسز معطل کر دیں۔ قابض بھارتی فورسز نے علاقے کا محاصرہ کیا اور تلاش جاری رکھی۔ علاوہ ازیں، بھارتی فورسز نے جموں کے آر ایس پورہ سیکٹر میں ایک خاتون کو در انداز قرار دے کر گولی مار کر شہید کر دیا۔ بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے ایک ترجمان نے الزام لگایا کہ آر ایس پورہ سیکٹر میں بین الاقوامی سرحد پر اتوار کی شام بی ایس ایف اہلکاروں نے ایک پاکستانی خاتون در انداز کو مار دیا۔ دوسری جانب، مسلم لیگ کے امیر مشتاق الاسلام کو سری نگر سے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے انہیں شہر کے علاقے بٹہ مالو میں ان کے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا۔
مقبوضہ وادی میں بھارتی غاصب سکیورٹی فورسز کے مظالم دہائیوں سے جاری ہیں اور گزشتہ 863 دن سے مقبوضہ علاقے کا فوجی محاصرہ جاری ہے، بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے اس صورتحال سے پوری طرح واقف ہیں اور پاکستان مختلف مواقع پر عالمی ضمیر کو اس حوالے سے جھنجھوڑتا بھی رہتا ہے لیکن یہ انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس سلسلے میں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ممالک ہیں اور مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان تعلقات مسلسل کشیدہ چلے آرہے ہیں، عالمی برادری کو اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی مرحلے پر حالات زیادہ خرابی کا شکار ہوتے ہیں تو اس کا نتیجہ صرف اس خطے کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے انتہائی پریشان کن ہوگا۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا مستقل اور پائیدار حل ہی خطے میں امن و امان کے قیام کو بھی یقینی بنا سکتا ہے اور اس بات کی بھی ضمانت فراہم کرسکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت دو ایسے ہمسایوں کی طرح ساتھ رہیں جنہیں ایک دوسرے سے کسی بھی معاندانہ کارروائی کا خوف نہ ہو۔