انتخابات بذریعہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین

آج کل حکومت کی سوئی اس بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے ذریعہ آنے والے انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جائے۔ اپوزیشن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اس بات سے نہ صرف انکاری ہیں بلکہ مشینی انتخابات کے خلاف پیشگی تحریک چلانے کی دھمکی بھی دے چکی ہیں۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کے بل بوتے پر مشینی انتخابات کے حق میں ایک قانون کی منظوری بھی حاصل کرلی ہے۔ مشینوں کے استعمال کے حق میں حکومت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس سے انتخابات میں دھاندلی کو روکنا مقصود ہے۔ اپوزیشن کے نزدیک اس کے بالکل برعکس دلیل ہے کہ مشینوں کا استعمال انتخابات میں دھاندلی کے نت نئے دروازے کھول دے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی اس تنازعہ کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
مجھے امریکہ میں رہتے ہوئے الیکشن کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک درجن سے زیادہ اقسام کی الیکٹرونک ووٹنگ مشینز کو سمجھا اور ان کی کارکردگی کو بڑے قریب سے جانچا۔ سادہ الفاظ میں اگر آپ نے اے ٹی ایم سے پیسے نکلو ائیں تو آپ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو بھی آسانی سے سمجھ جائیں گے۔ جس طرح اے ٹی ایم میں روپے پہلے سے ڈال دئیے جاتے ہیں اسی طرح امیدواروں کے ناموں کی فہرست مع ان کے انتخابی نشان کے پہلے سے ہی الیکٹرونک ووٹنگ مشین میں ڈال دی جاتی ہے۔ ووٹر جب اپنی پسند کے امیدوار کے نام یا نشان کو ٹچ کرتا ہے، جیسے آپ اے ٹی ایم سے روپے نکلواتے ہوئے اپنی پسند یا ضرورت کی رقم پر ہی پریس کرتے ہو۔ پہلے سے ڈالے گئے بیلٹ پیپرز پر ووٹر کے نشان کو چھونے کے بعد اسی نام یا نشان پر ایک پنچ یعنی سوراخ ہوجاتا ہے۔ آپ چاہیں تو مشین کے بتائے ہوئے ٹوٹل کو صحیح مان لیں یا پھر مشین کھول کر ہاتھوں سے ان پنچ کیے ہوئے ووٹس کو گن لیں۔ بالکل ایسے جیسا کہ روپے گننے والی مشین بھی نوٹ گن کر بتا سکتی ہے کہ کل کتنے ہیں ؟ ورنہ روپے ہاتھ سے بھی گنے جاسکتے ہیں۔ ایسی ووٹنگ مشینوں کا استعمال امریکا سمیت یورپ کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں برسوں سے ہورہا ہے۔ اب تو بھارت میں بھی ان ووٹنگ مشینز کو استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک ،ووٹرز کے لیے آسانی پیدا کرنا اور دوسرا، انتخابات کا فوری نتیجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ تیسرا فائدہ اگر ہوتا تو میں بیان کردیتا۔ 
 اب آتے ہیں انتخابات اور اس سے جڑے اہم نظریات کی طرف۔ انسان کے بنیادی انسانی حقوق میں جان اور مال کے بعد ووٹ کا حق تیسرا بڑا حق ہے۔ اور سب سے پہلا اور اہم سیاسی حق ہے جو جدید دور میں انسان کو خود اقتدار میں آنے کے لیے یا دوسرے انسانوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں اقتدار کے حصول کے لیے تلوار اور نیزوں کا استعمال کیا جاتا تھا، اور بعدازاں بارود کی ایجاد کے بعد یہ فیصلہ میدان جنگ میں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور توپوں کے گولوں کی گھن گرج میں طے ہوتا تھا۔ اقتدار کے لیے قدیم یونانی ریاستیں اسپارٹا اور ایتھنز کی آپس کی لڑائیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ آج سے کم وبیش تین ہزار سال پہلے یہ اعزاز بھی ایتھنز کے نصیب میں آیا جہاں عام افراد مل کر اپنے حکمرانوں کا چناؤ کرنے لگے۔ شروع شروع میں ڈراز کے ذریعہ انتظامی عہدیداران کا انتخاب کیا جانے لگا۔ اور بعدازاں شہر سے اوپر ریاست کی سطح کے انتظامی، عدالتی، اور قانون سازی کے لیے موجود اداروں میں اہم عہدوں کے لیے انتخابات کرائے جانے لگے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اقتدار کے لیے جنگ و جدل کا دور ٹل گیا۔ آج کے جدید دور میں بھی زیادہ تر اقوام میں طاقت یعنی بلٹ/گولی کی بْنیاد پر ہی اقتدار پر قبضہ کیا جاتا نہ کہ بیلٹ/ووٹ کی بنیاد پر۔ 
اب دیکھتے ہیں الیکشن جو کسی بھی جمہوری نظام کی روح ہیں ،کسے کہتے ہیں ؟ قدیم یونانی مفکرین سے کے کر انگریز فلاسفرز تک ہر ایک نے مسلسل انتخابات کو جمہوریت کا بنیادی وصف اور جزو قرار دیا ہے۔ اس کے بغیر جمہوریت کی امارت دھڑام سے زمیں بوس ہوجائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کیا ہوتا ہے؟ سادہ سے الفاظ میں ’الیکشن ایک ایسے طریقہ کار کا نام ہے جس پر کسی ملک کی سیاسی قیادت بشمول عوام متفق ہوتی ہے کہ وہ پُرامن رہ کر اقتدار تک پہنچے‘۔ گویا کسی ملک کی سیاسی قوتیں یہ فیصلہ کریں گی کہ اقتدار کی پُرامن منتقلی کو عوام کی منشا کے مطابق یقینی بنانے کے لیے جس لائحہ عمل پر وہ متفق ہونگی وہ لائحہ عمل الیکشن کہلائے گا۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن