تعلقات بڑھانے کے خواہشمند،تاجک صدر:کا سا1000 منصوبے کی جلد تکمیل چاہتے ہیں،شہباز شریف:کئی معاہدے


اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+اے پی پی) تاجکستان کے صدر امام علی رحمان دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے۔ ائر پورٹ پر وفاقی وزیر تجارت نوید قمر نے تاجکستان کے صدر کا استقبال کیا جس کے بعد تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کو وزیراعظم ہا¶س آمد پر گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ وزیراعظم ہاﺅس میں تاجک صدر نے شہباز شریف سے ملاقات کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تاجک صدر کا خیر مقدم کیا۔ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے معاملات اور علاقائی امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ مزید برآں مختلف معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور صدر امام علی رحمان بھی موجود تھے۔ وزیراعظم اور تاجک صدر نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ تاجک صدر کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ تاجک صدر کا دورہ پاکستان کیلئے باعث فخر ہے۔ پاکستان تاجکستان کے بہن بھائیوں کا دوسرا گھر ہے۔ مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہیں۔ پاکستان اور تاجکستان کے تعلقات مزید مستحکم ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں۔ تاجکستان وسط ایشیا کا اہم ملک ہے۔ کاسا 1000 منصوبے کی جلد تکمیل کے خواہشمند ہیں۔ پاکستان وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ تعلقات کا فروغ چاہتا ہے۔ تاجک صدر نے کہا کہ پرتپاک خیر مقدم پر پاکستانی وزیراعظم اور عوام کا شکر گزار ہوں۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔ تاجکستان پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تجارت کا فروغ چاہتے ہیں۔ پاکستان تاجک تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں۔ کاسا 1000 سمیت دیگر منصوبوں کی جلد تکمیل کے خواہاں ہیں۔ افغانستان میں امن و امان کے چیلنجز کیلئے پاکستان کے ساتھ ملکر کام کریں گے۔ پاکستان کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے چینلجز کا مقابلہ کریں گے۔ پاکستان اور تاجکستان یک جان دو قالب ہیں۔ مزید برآں پاکستان اور تاجکستان نے تجارت، معیشت، توانائی، زراعت، سکیورٹی، صنعت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے اور قریبی اور برادرانہ تعلقات کو مزید تقویت دینے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تاجک صدر کے دورے کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم بنانے اور تعاون کے نئے دور کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ریلوے، روڈ اور انرجی نیٹ ورک کے فروغ کا خواہاں ہے، کاسا 1000 منصوبے کی جلد تکمیل چاہتے ہیں۔ جبکہ تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے کہا کہ مختلف علاقائی اور عالمی معاملات پر دونوں ممالک کے خیالات یکساں ہیں، مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے خواہشمند ہیں، پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی سمیت دیگر چیلنجوں سے نمٹیں گے اور افغانستان میں امن و استحکام کے لئے کام کریں گے۔ بدھ کو یہاں وزیراعظم شہباز شریف اور تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کے درمیان ون آن ون ملاقات اور وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے اور دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ اس موقع پر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ تاجکستان کے صدر کا دورہ پاکستان ہمارے لئے باعث مسرت اور اعزاز ہے، پاکستان کے عوام انتہائی خوش ہیں کہ تاجکستان کے صدر اپنے دوسرے گھر آئے ہیں، آج ہم نے دونوں ممالک کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے، سرمایہ کاری، تجارت اور ثقافت کے فروغ کے لئے تعمیری اور مفید بات چیت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ان اولین ممالک میں شامل ہے جنہوں نے 30 سال پہلے تاجکستان کو تسلیم کیا تھا، ہمارے انتہائی قریبی اور برادرانہ تعلقات ہیں، ہمیں اقتصادی تعاون کے فروغ اور صنعت، تجارت، زراعت، توانائی اور مشترکہ منصوبوں میں تعاون کو وسعت دینے کی ضرورت ہے، تاجکستان کو وسط ایشیا میں اہم مقام حاصل ہے اور یہ وسطی ایشیا کا گیٹ وے ہے، ہم آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، کاسا 1000 جلد مکمل کرنے اور وسطی ایشیائی ممالک اور پاکستان کے درمیان ریلوے اور روڈ، توانائی کے شعبوں میں رابطے بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ تاجکستان کے صدر کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے کہا کہ ہماری فراخدلانہ مہمان نوازی اور پرتپاک خیرمقدم پر پاکستان کی حکومت اور عوام کے شکرگزار ہیں، ہمارے روایتی، دوستانہ اور برادرانہ تعلقات ہیں اور پاکستان کے ساتھ مفید تعلقات کا قیام تاجکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے، ہم ان تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں، اعلیٰ سطحی مذاکرات دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے، انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران ہم نے کاسا 1000 سمیت توانائی کے شعبوں میں جاری منصوبوں میں مفید تعاون پر بھی بات چیت کی ہے، اس کے علاوہ خوراک کی صنعت، زراعت، تعمیراتی سامان اور ادویہ سازی تعاون کے لئے مفید شعبے ثابت ہو سکتے ہیں، ہم نے ان شعبوں میں پاکستان کے کاروباری شعبے کی موثر شرکت کی بھی بات کی ہے اور اس مقصد کے لئے ہم نے زرعی مصنوعات کی پروسیسنگ میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے اور تاجکستان کے آزاد اقتصادی زون میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کی تجویز دی ہے، ہم دونوں ممالک کے کاروباری شعبوں کے درمیان باہمی تعاون کا خیرمقدم کریں گے، ہم نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت، معیشت، سائنس و تکنیکی تعاون اور دیگر شعبوں میں حکومتی کمیشن اور مشترکہ ورکنگ گروپس کو فعال کیا جائے، دونوں ممالک کے درمیان انسانی ہمدردی اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ تاجک صدر نے کہا کہ مذاکرات کے دوران سکیورٹی سے متعلق امور پر بھی تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا اور اس شعبے میں تعاون کی سطح پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اور ہم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے، دہشت گردی اور انتہا پسندی، سرحد کے آر پار جرائم، منشیات کی سمگلنگ اور سائبر کرائمز کی روک تھام کے لئے مشترکہ اقدامات کئے جائیں گے۔ تاجکستان کے صدر نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لئے مل کر کام کریں گے اور دہشت گردی سمیت دیگر چیلنجوں سے مل کر نمٹیں گے، ہم افغانستان میں پائیدار امن، استحکام اور قومی مفاہمت کے خواہاں ہیں اور اس مقصد کے لئے افغانستان میں مختلف سیاسی و نسلی گروپوں پر مشتمل ایک جامع حکومت قائم کی جا سکتی ہے اور اس کے لئے علاقائی اور عالمی سطح پر کی جانے والی تعمیری کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، پاکستان اور تاجکستان مختلف اہم علاقائی اور عالمی امور پر یکساں موقف رکھتے ہیں، تاجکستان کا اقوام متحدہ، ایس سی او، ای سی او، اسلامی تعاون تنظیم اور دیگر مختلف عالمی فورمز میں فعال کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاجکستان کے پانی اور موسمیاتی تبدیلی کے ایجنڈے پر پاکستان کی حمایت کو سراہتا ہے، دونوں ممالک کے فائدے کے لئے باہمی تعاون جاری رہے گا۔ تاجکستان کے صدر نے وزیراعظم شہباز شریف کو تاجکستان کے دورے کی دعوت بھی دی۔پاکستان اور تاجکستان کے درمیان جو معاہدے ہوئے ان میں ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت مختلف سمجھوتے شامل ہیں۔ 


شہباز امام علی رحمان 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...