ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو معاشرے کی تعمیر میں کلیدی معمار سمجھا جاتا ہے جامعات نہ صرف علم کو فروغ دیتی ہیں بلکہ دستیاب تعلیمی وسائل کو متحرک کرنے اور متنوع آبادیوں کو سیکھنے کے مواقع فراہم کرنے میں بھی منفرد صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، یونیورسٹیاں نوجوان طلباءکو تعلیم دینے سے لے کر مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلباءکو ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے مختلف ادوار اور مراحل میں اعلیٰ تعلیم میں داخل ہونے کی ترغیب دینے کے لیے بنیادی تبدیلی کی محرک قوتیں ہیں۔ بدقسمتی سے ترقی پزیر ممالک میں جامعات کی معاشرے کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے اس حقیقی شراکت کا احساس یا تو بالکل ہے ہی نہیں اور اگر کہیں ہے بھی تو نہ ہونے کے برابر۔ یہی وجہ ہیکہ اعلیٰ تعلیم کے یہ ادارے ارباب اختیار کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہوکر ان گنت مسائل میں گھرے رہتے ہیں اوراپنی بقا کی جنگ میں مصروف عمل رہتے ہیں۔یوں تو پاکستان میں بھی سرکاری شعبے میں قائم جامعات بے پناہ مالی مشکلات کا شکار ہیں مگر آزادجموں وکشمیر کی جامعات کو مالی عدم استحکام کے زیادہ گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔اس سے پہلے کہ یہ سوچیں کہ آزاد جموں و کشمیرکی یونیورسٹیوں کو پاکستانی یونیورسٹیوں سے زیادہ مسائل کا سامنا کیسے ہے تو یہ یاد دلاتے چلیں کہ پاکستان میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد یونیورسٹیاں صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام چلی گئیں اور تمام صوبے اپنی اپنی یونیورسٹیوں کے مالی استحکام کے لیے اپنے بجٹ میں ضروری وسائل مختص کر رہے ہیں مگرآزاد کشمیر میں یہ صورتحال یکسرمختلف ہے۔اب ہم ریاست کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی آزاد جموں و کشمیر کی مثال ایک کیس اسٹڈی کے طور پر لیں اور اس ادارے کو درپیش مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
1980 میں اپنے قیام کے بعد سے جامعہ کشمیر نے نوجوانوں کو معیاری اوراعلیٰ تعلیم فراہم کرنے میں ایک طویل سفر طے کرتے ہوئے ملک بھر کی جامعات میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ آج بھی جامعہ سے فارغ التحصیل کئی گریجویٹس ریاستی،قومی اور بین الاقوامی سطح پر تمام شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکرریاستی اور ملکی ترقی میں اپناکردار ادا کررہے ہیں۔ قدیم مادرعلمی جس میں اس وقت 10ہزار سے زیادہ طلباءزیر تعلیم ہیں کئی وجوہ کی بنا پر شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔2009 تک جامعہ کشمیر خطے میں اعلیٰ تعلیم کا واحد ادارہ ہونے کے ناطے، طلبائ کی ایک بڑی تعداد کو زیورتعلیم سے آراستہ کررہی تھی مگر بعد میں ریاست میں چار نئی یونیورسٹیوں کے قیام جن میں میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (مسٹ)، یونیورسٹی آف کوٹلی، یونیورسٹی آف پونچھ راولاکوٹ، اور ویمن یونیورسٹی باغ شامل ہیں سے طلبائ اور ملحق کالجز کی تقسیم سے جامعہ کشمیر کی آمدن میں نمایاں کمی ہوئی۔پاکستان میں چاروں صوبائی حکومتیں اپنے صوبوں میں اپنی اپنی جامعات کو باقاعدہ مالی امداد فراہم کر رہی ہیں جس کی بڑی مثال سندھ گورنمنٹ کی ہے جس نے رواں مالی سال میں اپنے منظورشدہ بجٹ میں جامعات کے لیے 6بلین روپے مختص کیے۔تاہم، آزاد کشمیر حکومت، جو پہلے جامعہ کشمیرکو 60 لاکھ روپے کی معمولی گرانٹ فراہم کر رہی تھی اس نے اسے کم کرکے35لاکھ روپے سالانہ کر دیا ہے یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی آف آزادجموں وکشمیر کے چار مرکزی کیمپسز میں سے دو،جہلم ویلی اور نیلم ویلی کیمپسز لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی فائرنگ سے متاثرہ علاقوں میں واقع ہیں جہاں ماضی میں ایل او سی کے پار سے گولہ باری ہوتی رہی ہے۔اس گولہ باری نے نہ صرف کنڑول لائن کے قریب رہائش پزیرباشندوں کو بے گھر کیا بلکہ مقامی آبادی کی معاشی سرگرمیوں کو بھی شدیدمتاثر کیا جس سے جامعہ میں زیر تعلیم طلباءکے والدین کی یونیورسٹی واجبات ادائیگی کی صلاحیت میں بھی قابل ذکر کمی واقع ہوئی۔اسی طرح 2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد، جس نے مظفر آباد میں جامعہ کشمیرکے پورے ڈھانچے کو تباہ کر دیاتھا، سعودی حکومت کی فراخدلانہ امداد سے آزادکشمیر یونیورسٹی کا نیا اور جدید ترین کنگ عبداللہ کیمپس چھتر کلاس کے مقام پر تعمیر کیا گیا۔ یہ کیمپس جو اب مکمل طور پر فعال ہے اسکے انتظامی اخراجات اور طلباءکی بڑی تعداد کو مظفرآباد سے چھترکلاس تک نقل و حمل کی سہولیات کی فراہمی نے بھی جامعہ کے آپریشنل اور ٹرانسپورٹ اخراجات میں بے پناہ اضافہ کیا۔یونیورسٹی کے تعلیمی اخراجات میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا حصہ بھی دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ چند سال قبل تک ایچ ای سی جامعات کے کل اخراجات کا 30 سے 35 فیصد تک اداکرتا تھا مگر اب یہ کم ہوکر 15 فیصد رہ گیا ہے جس سے جامعات کی آمدن پر اچھاخاصا فرق پڑاجس سے یونیورسٹی کی مجموعی آمدنی بتدریج کم اوراخراجات میں مسلسل اضافہ ہو تارہااورادارے کی مالی صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے۔
کرونا وباءکے دوران ریاست گیر لاک ڈاو¿ن کے دوران یونیورسٹی کی بندش، سمسٹر سیشن بند ہونے کی وجہ سے آمدنی میں کمی اور وبائی امراض کے خلاف حفاظتی اقدامات پر اضافی اخراجات نے یونیورسٹی کے مالی وسائل کو مزید ابتر کردیا۔1980 میں قائم کی گئی یونیورسٹی میں بھرتی کیے گئے ملازمین کی ایک بڑی تعداداب ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ رہی ہے جن کے پنشن واجبات کی ادائیگی جامعہ کے لیے بذات خود بڑا چیلنج ہے۔ان مشکل حالات کے باوجودبھی اس وقت10ہزار سے زائدطلباء بی ایس سے پی ایچ ڈی تک کے78 ڈگری پروگراموں میں زیر تعلیم ہیں جن میں نصف تعدادبچیوں کی ہے جو کہ والدین کا ادارے پر اعتماد کا بین ثبوت ہے وقت آگیا ہے کہ وفاقی،ریاستی حکومتیں اورہائرایجوکیشن کمیشن آزاد جموں و کشمیر کی سرکاری شعبہ میں قائم جامعات کو ان کثیر الجہتی چیلنجزسے نجات دلائیں۔