درسگاہ بچاﺅ مہم !....(2)

Dec 15, 2022


 اس سے قوم پر بہت احسان ہوگا اور اربوں روپے بھی بچیں گے۔ ایچ ای ڈی اور حکومت پنجاب کی یہ کیسی پالیسی ہے کہ پنجاب میں نئی یونیورسیٹیز بنانے کی بجائے موجودہ کالجزکو یونیورسٹی کا درجہ دیا جا رہا ہے ۔ یہ پالیسی مری میں دو کالجز کوہسار یونیورسٹی کے نام پر کھا گئی ۔ چکوال میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال، راولپنڈی میں وقار النساءپوسٹ گریجویٹ کالج فارویمن اور گورنمنٹ کالج فار ویمن سکتھ روڈ کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر غریب طلباءو طالبات کو مہنگی اور غیر معیاری تعلیم کے حوالے کر دیا ۔ راولپنڈی اسلام آباد جہاں پہلے ہی پچاس سے زائد یونیورسٹی کیمپس موجود ہیں اس طرح کا عمل انتہائی غیر معقول اورغیر مقبول ہے اور یہ پالیسی ایچ ای ڈی حکام اور تعلیمی مافیا کی ملی بھگت ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے پالیسی میکرز جنرل یونیورسٹیز کی بجائے میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیز کے قیام پر توجہ دیتے کیونکہ MDCATرزلٹ2021ہمیں بتاتا ہے کہ اس میں ایک لاکھ نوے ہزار طلباءو طالبات شامل ہوئے 65ہزار نے امتحان پاس کیا اور داخلہ صرف 20ہزار کا ہوا۔ اس وقت جب ملک می ڈاکٹرز کی شدید قلت ہے یعنی صرف 2لاکھ گویا تقریباً ایک ڈاکٹر 15سو افراد کے لیے ۔ یہی صورت حال انجینئرز کی ہے گویا ہم بیروزگاروں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار کر رہے ہیںمگر ہمارے پالیسی میکرز پروموشنز اور دیگر مراعات چکر میں سیاست دانوں اور عوام کے آنکھ میں دھول جھونک رہے ہیں۔ 
گورڈن کالج کی نجکاری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صدر کینٹ اور راجہ بازار جیسے مصروف گنجان آباد کاروباری مراکز کے درمیان اس طرح کا ادارہ چلانا ناممکن ہے یہاں تعلیمی ادارے سے زیادہ تجارتی مرکز کا قیام زیادہ موزوں ہے اور شائد کمیونٹی اسی وجہ سے یہ ادارہ لینا چاہتی ہے کیونکہ یہاں پر اس وقت فی مرلہ قیمت ایک کروڑ سے زائد ہے جبکہ 81کنال کیمپس کی مالیت اربوں میں بنتی ہے ۔ یہی نہیں قبضہ مافیا اس میں سے 21کنال کئی دفعہ بیچ چکا ہے۔ اور اگر معاملہ واپسی کا ہی ہے تو پھر یقیناً ہماری حکومتوں کو اس پالیسی کے تحت راولپنڈی کے متعدد تعلیمی اور طبی ادارے مثلاً گورنمنٹ حشمت علی اسلامیہ کالج، اسلامیہ اور مسلم سکولز ، ہولی فیملی ہسپتال ان کے مالکان کو واپس کرنا پڑیں گے بلکہ اس پالیسی کے تحت گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی پشاور روڈ جسے 1980کی دہائی میں میں نسٹ کا درجہ دیا پنجاب کو واپس کرنا چاہیے ؟سب سے بڑھ کر یہ کہ یونیورسٹیز اور کالجز ہمیشہ شہر سے دور پر امن کھلے ماحول میں قائم کیے جاتے ہیں ناکہ گنجان آباد علاقوں میں جس سے کئی سماجی ، معاشی اور سفری مسائل جنم دیتے ہیں۔ (ختم شد)

مزیدخبریں