جمعرات،20  جمادی الاوّل 1444،15 دسمبر2022ء 


پالیسی ہے پٹرولیم مصنوعات سستی نہ کریں تو مہنگی بھی نہیں۔ اسحاق ڈار 
اس پالیسی بیان دینے کے بعد تو مسلم لیگ نون والوں کو چاہیے کہ ابھی سے ’’جو بچا ہے مال سمیٹ لیں‘‘ اور آنے والے الیکشن سے پہلے ہی بوریا بستر باندھنا شروع کر دیں۔ واپسی کی ٹکٹیں بھی قبل از وقت بک کرانے میں ز یادہ بہتری ہے۔ اگر ایسا ہی روکھا جواب دینا تھا تو چند دن پہلے تک یہ جو زور و شور سے جھوٹا بیانیہ چلایا جا رہا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 40 روپے تک کمی کا امکان ہے تو کیا یہ سب ٹوپی ڈرامہ تھا۔ عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا تھا۔ مگر یاد رہے اب عوام بے وقوف نہیں بن سکتے۔ آپ کو کوئی سرخاب کے پَر نہیں لگے کہ عوام سو جوتے اور سو پیاز کھا کر بھی آپ کو ووٹ دیں۔ اگر ایسے ہی عوام کو بھوکا مار کر کوئی سمجھتا ہے کہ تخت سنبھال لے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ جب سے مسلم لیگ (نون) کی حکومت آئی ہے مہنگائی بے لگام ہے۔ کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جسے سستا کہہ سکیں۔ اسحاق ڈار کو حکمران آلہ دین کے چراغ کا جن بنا کر لائے مگر وہ بھی ٹھس ہوگئے۔ شایدوہ اپنی جلاوطنی کا غصہ بھی عوام پر نکال رہے ہیں۔ ماسوائے دوست ممالک سے امداد مانگنے کے کوئی کام اب انہیں یاد نہیں۔ ڈالر آج بھی 200 سے بہت اوپر ہے۔ پٹرول بھی 200 سے کافی اوپر ہے۔ سبزیوں اور دالوں کے دام بھی 200 سے 400 روپے اور اس سے بھی اوپر ہیں۔ ایسے میں تو کوئی احمق گائودی یا پاگل ہی ہوگا جوبھوکا مرنے کا خواہشمند ہوگا،وہ آزمائے ہوئوں کو دوبارہ آزمائے گا۔ 
٭٭٭٭٭
سوشل میڈیاپر 11 کلو وزنی بلی کی دھوم 
اتنا صحت مند اور پلا پلایا تو ہمارے ہاں عام ٹیڈی بکرا نہیں ہوتا جتنی یہ یک و تنہا نوعیت کی بلی ہے۔ ایسی چٹخوری بلیاں ہمارے ہاں موجود نہیں اور ہو بھی نہیں سکتیں۔ جہاں انسان بھوکے مر رہے ہوں وہاں ان بھاری بھرکم جسامت والی بلیوں کو کون کھلائے پلائے۔ یہ تو انگریزوں یعنی یورپی اور امریکی لوگوں کے چونچلے ہیں جو جانوروں کی محبت میں مرے جاتے ہیں۔ اپنے آپ سے زیادہ ان جانوروں کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے اور علاج معالجے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو گلی میں پائی جانے والی بلی کے بچوں کو البتہ کسی پرانی ٹوٹی پرچ میں یا پیالی میں دودھ ڈال کر پلانے کو ہی نیکی اور ثواب کا کام خیال کیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہوا تو چھیچھڑے لا کر ڈال دیتے ہیں اور اسے بڑا کارخیر سمجھتے ہیں۔ مگر یورپ میں ایسا نہیں ہوتا وہاں تو جانوروں کے علیحدہ علیحدہ ریسٹورنٹ ہوتے ہیں۔ کوئی کتوں کا ریسٹورنٹ ہوتا ہے تو کوئی بلیوں کا۔ ڈاکٹر بھی ہر ایک جانور کا طبیب خاص یعنی سپیشلسٹ ہوتا ہے۔ اب اسی بل کے قد و قامت اور صحت سے اندازہ لگا لیں۔ یہ کتنی خوش خوراک اور پیٹو ہو گی۔ آفرین اس کی مالکن پر بھی ہے جو یہ سب اخراجات برداشت کر لیتی ہے۔ ہمارے ہاں تو اگر بلی دودھ میں منہ مار جائے تو سارا گھرانہ جوتے اٹھائے اسے مارنے اور بھگانے کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔ یہ یورپی اقوام تو انہیں چومتے چاٹتے اپنے ساتھ سلاتے کھلاتے اور پلاتے ہیں۔ فی الحال ہم اتنے آزاد خیال اور جانور پرست نہیں ہوئے۔ ایلیٹ کلاس والے بھی بس اوپر اوپر سے ماڈرن نظر آنے کے لیے اپنے پالتو جانور کو گود میں لیے چومتے ضرور ہیں مگر بعد میں اندرا گاندھی کی طرح جو کسی مسلمان سے ہاتھ ملانے کے بعد ہاتھ فوری طور پر دھوتی تھیں یہ بھی ہاتھ منہ اچھے سے میڈیکل صابن سے رگڑ رگڑ کر دھوتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭ 
حمزہ شہباز نجی دورے پر لندن چلے گئے 
یہ عجب آنا جانا لگا ہوا ہے۔ ہماری سیاست میں کوئی آ رہا ہے کوئی جا رہا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے سیاستدانوں کو کیا ہو گیا ہے اور ہماری سیاست میں اندر خانے کیا ہو رہا ہے۔ لگتا تو یوں ہے کہ سارے سیاستدان مل کر عوام کو گھما گھما کر گھن چکر بنا رہے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے سلمان شہباز اڑتے اڑتے پاکستان واپس آئے اور آتے ہی اپوزیشن پر یوں برسے کہ پچھلا سارا حساب چکا دیا۔ کہاں سے چلے اور کہاں جا کر ٹھہرے۔ توشہ خانہ سے شروع ہونے والی کہانی بچوں کے تذکرے پر ختم ہوئی جو نہایت غلط بات ہے۔ اعلیٰ ظرف لوگ سیاسی اختلافات کو ذاتی زندگی تک نہیں لے جاتے اور یوں سرعام رشتوں کا تقدس پامال نہیں کرتے۔ اب سلمان شہباز کو آئے ایک دو روز ہی ہوئے تھے یہ تک واضح نہیں ہو سکا تھا کہ موصوف کس مشن کے تحت آئے ہیں یا لائے گئے ہیں۔ اب گزشتہ روز حمزہ شہبازاچانک لندن کی طرف پرواز کر گئے۔ شنید میں یہی آیا ہے کہ وہ نجی دورے پر لندن گئے ہیں۔ اب کوئی پوچھے تو سہی کہ اس وقت جب پنجاب اسمبلی میں حکمران جماعت کا تخت ڈانواں ڈول ہے۔ کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا ہے۔ استعفے آ سکتے ہیں یا اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے۔ ایسے نازک وقت میں قائد حزب اختلاف کا یوں میدان جنگ کی پہلی صف سے نکل کرباہر چلے جانا اچھا شگون نہیں۔ لوگ تو پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ورنہ حمزہ کی جگہ سلمان نے سیاسی میدان میں انٹری ڈال کر جو سخت گیر رویہ اپنایا ہے اس کے پیچھے بھی کوئی وجہ تو ضرور ہوں گی۔ کہیں مسلم لیگ (نون) میدان جنگ میں گھوڑے تو نہیں بدل رہی۔ 
٭٭٭٭٭
وزیرمملکت حنا ربانی کھر کے دورے سے افغانستان کے حکمران خوش نہیں تھے۔ مولانا عبدالاکبر چترالی
اب معلوم نہیں یہ شکوہ تھا یا حق گوئی و بے باکی کا شاندار مظاہرہ کہ قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے عبدالاکبر چترالی کو ایسے عالمانہ وعاجلانہ جملوں کی ادائیگی کے ساتھ ہی فوری طور پر خواتین ارکان قومی اسمبلی کے کرارے قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے مولانا کے اس بیان کے جواب میں دل کھول کر ثابت کیا کہ یہ پاکستان ہے یہاں ایسے خواتین شکن بیان قابل قبول نہیں۔ ویسے افغانستان میں طالبان حکومت کیا اب یہ طے کرے گی کہ ان کے ہاں آنے والے وفد میں مرد ہی ہوں خاتون کوئی نہ ہو۔ اگر انہیں اتنی چڑ ہے تو عالمی وفود میں جو خواتین آتی ہیں ان گوری میموں کی بھی افغانستان آمد پر پابندی لگائیں جنہیں وہ مسکراتے ہوئے ویلکم کرتے ہیں۔ پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ پاکستان کی وزیرمملکت کی سربراہی میں جو وفد گیا اس پر اگر افغان حکومت ناراض ہوتی ہے  یا طالبان کا پارہ ہائی ہوتا ہے تو ہو۔ پوری دنیا میں طالبان حکومت کے خواتین کے ساتھ غیرمنصفانہ سلوک پر آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ زنانہ تعلیمی اداروں کی بندش خواتین کی نوکریوں پر پابندیوں کی وجہ سے دنیا پہلے ہی ناراض ہے۔ اب اگر کوئی پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی ان کی مذمت کی بجائے حمایت میں بولے گا تو اس پر حیرانگی تو ہو گی۔ خواتین ممبران اسمبلی اور وزیرنیاں تو بولیں گی۔ ویسے بھی حنا ربانی نے مکمل طور پر اسلامی روایات کے تحت لباس پہنا تھا سر پر ڈوپٹہ بھی لیا تھا تو کسی کو پھر بھی ناگوار لگتا ہے تو لگے ہم سب کو راضی رکھنے سے تو رہے۔ دراصل طالبان اپنے ٹوپی برقعہ کو عین اسلامی اور باقی سب کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ اب صرف من پسند برقعے کی وجہ سے کسی ملک کی خاتون وزیر سے اگر کوئی ملاقات نہیں کرتا تو یہ اس کی مرضی ۔

ای پیپر دی نیشن