پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے پرجوش حامی ہیں۔وہ بیرون مْلک میں رہنے والے پاکستانیوں میں بہت زیادہ مقبول سیاسی راہنما ہیں۔ اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ موجودہ حکومت اپنی واضح شکست کے خوف سے سمندر پارپاکستانیوں کو اووٹ کا حق دینے سے انکاری ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وہ پاکستان کے شہری ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بیرون مْلک سے غیرملکی کرنسی کی ترسیل کا سب سے بڑا، مستقل، اور موثر ذریعہ ہیں۔ پاکستان کی برآمدات کے تقریباً برابر زرمبادلہ ہم بیرون مْلک پاکستانیوں کی ترسیلات زر سے حاصل کرتے ہیں جو ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک نے بھی اپنے شہریوں کو بیرون مْلک سے ووٹ ڈالنے کی سہولت دی ہوئی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ایسے پاکستانی جن کا نام پاکستان کے کسی بھی حلقہ میں ایک رجسٹرڈ ووٹر کے طور پر درج ہے، وہ کسی بھی الیکشن میں پاکستان واپس آکر اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکتا ہے۔ اصل سوال اوورسیز کے ووٹ کا حق نہیں، بلکہ اصل بات فاصلے سے ووٹ دینے کے حق کی ہے۔ مْلک میں اندرونی طور پر تو اس مسئلہ کا حل ڈھونڈ لیا گیا ہے کہ ایسے رجسٹرڈ ووٹرز جو سرکاری ملازمت میں ہیں اور وہ الیکشن والے دن اپنے حلقہ میں موجود نہیں ہوں گے بلکہ اپنی سرکاری ڈیوٹی پر ہوں گے، تو ایسے افراد ڈاک کے ذریعہ اپنا ووٹ بند لفافہ میں ڈال کر بھیج سکتے ہیں، جسے عرف عام میں پوسٹل بیلٹ کہا جاتا ہے۔
در اصل بیرون مْلک مقیم پاکستانی چاہتے ہیںکہ انہیں پوسٹل بیلٹ یا پھر آن لائن کمپیوٹر کے ذریعہ ووٹ کے استعمال کا حق دیا جائے تاکہ وہ پاکستان میں اپنی پسند کی سیاسی جماعت یا امیدوار کو ووٹ دے سکیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں مخصوص کردی جائیں، جیسا کہ آزاد کشمیر کی اسمبلی میں پاکستان کے دیگر شہروں میں بسنے والے کشمیری باشندوں کے لیے ووٹ دینے کی سہولت موجود ہے۔ مگر بیرون مْلک پاکستانیوں کے لیے پاکستان کے عام انتخابات میں ووٹ دینے کے حوالے سے کئی سیاسی، معاشی، سماجی، آئینی و قانونی پیچیدگیاں ہیں، جنہیں سمجھنا بہت ضروری ہے۔
سب سے پہلی پیچیدگی سیاسی ہے۔ ووٹ کا مقصد اور ترجیح یہ ہوتی ہے کہ ووٹ دینے والا اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار کسی دوسرے کو سونپتا ہے جسے وہ اپنا نمائندہ بناکر اسمبلی میں بھیجتا ہے۔گویا ووٹر اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے بالواسطہ فیصلہ سازی کے عمل میںشریک رہتا ہے۔ اوورسیز پاکستانی کو ووٹ کا حق کس بنیاد پر دیا جائے جبکہ وہ مْلک میں موجود ہی نہیں ہے ۔اس سے مقامی ووٹر کو یہ اعتراض ہوسکتا ہے، اور یہ بجا بھی ہے کہ اس کی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار جس نمائندہ کو ہو ، اسے دور پار بیٹھے افراد کیوں منتخب کریں۔ ووٹ دینے اور ووٹ لینے والے کے درمیان جو تعلق ہونا چاہیے، اوورسیز کے ووٹ کے حق سے یہ تعلق واضح نہیں ہوتا۔ جبکہ یہ تعلق یا رابطہ ووٹ کی بْنیادی روح ہے۔
ووٹ کا حق دینے کے حوالہ سے یہ تعین کرنا بھی آسان نہیں ہوگا کہ کس سمندر پار پاکستانی کو یہ حق دیا جاسکتا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں میں سے بعض دوہری شہریت کے حامل بھی ہیں، یعنی پاکستانی شہریت کے علاوہ انہوں نے اپنے سکونتی مْلک کی شہریت بھی حاصل کی ہوئی ہے۔ دوہری شہریت کے حصول کے وقت کْچھ آئینی و قانونی تقاضے اس نوعیت کے بھی ہوتے ہیں کہ پھر اپنے مْلک سے تعلق اور وفاداری پر سمجھوتہ کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح بعض ممالک ایسے ہیں جہاں برس ہا برس رہنے کے باوجود پاکستانیوں کو شہریت نہیں مل سکتی، ان میں زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک آجاتے ہیں،تو کیا ایسے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جاسکتا ہے۔ بلکہ ان بہت سے عرب ممالک میں تو بادشاہتیں ہیں، جہاں ووٹ کے حق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اوران ممالک میں پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے میں کئی طرح کے سیاسی و قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مغربی جمہوری ممالک میں بسنے والے پاکستانی وہاں کچھ شرائط کی تکمیل کے بعد ووٹ سمیت اپنے دیگر سیاسی حقوق جلد حاصل کرلیتے ہیں، بلکہ بعض پاکستانی امریکہ سمیت ان مغربی مْمالک میں عوامی نمائندہ منتخب ہوکر ان کے قانون ساز اداروں اور انتظامیہ کا حصہ بھی بنے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ دوہری شہریت کے ساتھ ساتھ دوہرے ووٹ کا حق بھی ان کو مل جائے، کہ یہ وہاں رہتے ہوئے ، آن لائن یا کمپیوٹرائزڈ طریقہ سے پاکستان میں عام انتخابات میں بھی ووٹ ڈال سکیں۔ ظاہر ہے کہ ووٹ کا حق ملنے کے بعد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنی نمائندگی کا حق بھی مانگنے لگیں۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ووٹرز اور نمائندوں کی اہلیت کے لیے ہر مْلک نے سٹینڈرڈز طے کیے ہوئے ہیں جن میں بنیادی شرط ریزیڈینسی یا سکونت اختیار کرنا ہے۔ سکونت کی شرط پوری کیے بغیر اتنا اہم سیاسی حق تفویض کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر مْلکوں کے لیے تو یہ اور بھی زیادہ مشکل ہے جن کے ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں لوگ دوسرے مْلکوں میں آباد ہیں۔
اسی طرح جن پاکستانیوں کے بچے دوسرے مْلک میں پیدا ہوئے ہوں اور پھر آگے ان کے بچے، تو سوالات پیدا ہوں گے کہ آپ کن افراد کو جائز پاکستانی تصور کریں گے۔ وہ بچے جو غیر ملکی خواتین یا غیر مْلکی باپ سے پیدا ہوئے کہ جن کے ماں یا باپ میں سے کوئی ایک خود پیدائشی پاکستانی نہیں تو پھر کیا صورت حال پیدا ہوگی۔ گویا شہریت سے جْڑے کئی دیگر مسائل جنم لیں گے۔ جنہیں فوری طور پر حل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اسی طرح سب سے اہم مسئلہ درست ووٹر کی شناخت کا ہوگا، کہ کون جائز ووٹر ، خصوصاً مسلم ووٹر اور غیر مسلم میں تفریق یا تمیز آسان نہیں ہوگی، جبکہ مقامی طور پر اقلیتوں کے ووٹرز اور نمائندے مخصوص ہیں۔ اسی نوعیت کے دیگر معاشرتی اور معاشی مسائل بھی ہیں جن کی بنا پر یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو مستقبل قریب میں ووٹ کا حق دیا جاسکتا ہے۔ البتہ ایسا ممکن ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ یا دنوں کا تعین اور انتظامات اس نوعیت کے ہوں کہ اوورسیز پاکستانی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے پاکستان آسکیں، حکومت، سیاسی جماعتیں، انتخابی امیدوار ، اور غیر حکومتی تنظیمیں ایسی پالیسی بنائیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور فوائد میسر ہوں کہ وہ انتخابات کے موقع پر ووٹ ڈالنے اپنے مْلک واپس آسکیں، اس سے پاکستان کی معیشت پر بھی بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستان کی سیروسیاحت کی صنعت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ ایک پنتھ دو کاج والی بات ہوجائے گی، یعنی آم کے آم اور گْھٹلیوں کے دام۔ مْلک سیاسی اور معاشی دونوں سمتوں میں ترقی کی منازل طے کرے گا۔