گذشتہ دو دہائیوں میں حامد کرزئی یا اشرف غنی کی حکومتوں کے دوران جس طرح افغانستان سے پاکستان پر دہشت گردی کا طوفان برپا کیا گیا وہ مشکل وقت گزر جانے کے باوجود پاکستان کے عوام خود کش دھماکوں کے ان واقعات کو نہیں بھول سکتے جن میں 80 ہزار کے قریب پاکستانی شہید کر دیئے گئے۔ پاکستان کا کوئی ایک بھی شہرخود کش دھماکوں کے ان واقعات سے محفوظ نہیں تھا۔ فوجی تنصیبات بچوں اور بڑوں کے تعلیمی ادارے‘ ہسپتال‘ عدالتیں‘ مساجد‘ خانقاہیں‘ اقلیتوں کی عبادت گاہیں‘ یہاں تک کہ تفریح پارک بھی دہشت گردوں کا ہدف رہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ان خود کش دھماکوں کی پشت پر بھارت تھا جسے افغانستان میں امریکہ و برطانیہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ بھارت نے پاکستانی علاقوں سے ملحقہ افغان صوبوں میں دہشت گردی کے خصوصی تربیتی کیمپ قائم کر رکھے تھے۔ جہاں صرف جدید خود کار ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت ہی نہیں دی جاتی تھی بلکہ خود کش دھماکوں کیلئے ان قبائلی نوجوانوں کی ذہن سازی بھی کی جاتی تھی۔جنہیں افغانستان میں ملازمت دلانے کا جھانسہ دے کروہاں منتقل کیا جاتا یا پھر انہیں نظام اسلام کے نفاذ کے نام پر اپنی جان کی قربانی دینے کیلئے راضی کر کے تربیتی کیمپوں تک لے جایا جاتا تھا۔ اس عرصہ میں بھارت نے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ اس حد تک بڑھا لیا تھاکہ افغان فوج و خفیہ اداروں میں افسران کی ترقیاں اور تعیناتیاں تک بھارت کے افغانستان میں موجود’ را ‘ کے افسران سے پوچھ کر کی جاتی تھیں۔ ابتدائی برسوں میں افغان نیشنل آرمی میں بھرتی کئے جانے والے افسران کی تربیت کیلئے انہیں امریکہ لے جایا جاتا جہاں ان میں سے اکثریت رفو چکر ہوجاتی ۔ ان وجوہات کی بنا پر افغان فوج کی تربیت کی ذمہ داری بھی بھارت کو سونپ دی گئی۔ بھارت کس طرح افغانستان کو پاکستان کیخلاف اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتا رہا۔ اس کا برملا اقرار 2011ء میں امریکی سیکرٹری دفاع چک ہیگل نے اوکلوہامہ ریاست کی کیمرون یونیورسٹی میں اس وقت کیا جب امریکی افواج کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی ناکامیوں کی وجوہات جاننے کیلئے منعقد کئے گئے خصوصی سیمینار میں امریکی وزیر دفاع کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔مذکورہ سیمینار چونکہ حقائق کے ادراک کیلئے منعقد کیا گیاتھا شاید اسی لئے چک ہیگل نے وہ سچ بول دیا جو امریکی و نیٹو کمانڈر اپنے ممالک کے عوام سے چھپاتے چلے آ رے تھے۔ چک ہیگل نے کہا کہ ’’بھارت کافی عرصہ سے افغانستان کو پاکستان کیخلاف دوسرے محاذ کے طور پر استعمال کرنے کے علاوہ سرحد پار پاکستان میں ـ’مسائلـ‘ پیداکرنے کیلئے بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔‘‘ اپنے الفاظ کو سفارتی زبان کے دائرے میں رکھنے کیلئے اس نے وہاں موجود سامعین کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا ’’آپ اس کو کسی بھی زاویے سے سوچ سکتے ہیں۔ جسے برسوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی اور دونوں ملکوں کے مابین ٹوٹے ہوئے رشتوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘ اس دور میں امریکہ و دیگر مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے میڈیا گروپس پر بھارتی ’’نوازشات‘‘ اور امریکہ و نیٹو ممالک کیلئے بھارت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اوکلوہامہ میں جو کچھ امریکی وزیر دفاع نے کہا اسے دو برسوں تک دنیا سے اوجھل رکھا گیا۔ 2013ء میں ایک امریکی نیوز ویب سائٹ نے چک ہیگل کی تقریر اپ لوڈ کردی تو یہ خبر امریکی و برطانوی اخبارات کی شہہ سرخی بن گئی کہ بھارت براستہ افغانستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے ۔ بھارتی میڈیا نے اس خبر پر حسب روایت طوفان برپا کردیا ۔ یہ تلخ دور گزر چکا ۔ اب افغانستان میں افغان طالبان کی عبوری حکومت ہے جنہیں عالمی سطح پر پاکستان کا دوست قرار دیا جارہا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے کابل پر قبضے اور وہاں افغان طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد افغانستان کے اندر سے پاکستان پر حملوں میں کمی آنے کی بجائے الٹا اس میں اضافہ ہوگیا ہے۔ 11دسمبر 2022 ء کو جس طرح چمن کے بارڈر پر اچانک افغان فورسز کی جانب سے پاکستان کے سول افراد پرپہلے خود کا رہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی اور پھر توپ خانہ کو استعمال کرتے ہوئے چمن کے ایک گائوں پر گولے برسائے گئے۔ اے ایف پی کے مطابق افغان فورسز کے لوگ پاک افغان سرحد پر نصب خار دار باڑ کو توڑنے اور کاٹنے کی کوشش کررہے تھے۔ پاکستانی سیکورٹی فورسز کی طر ف سے روکے جانے پر افغان فوجیوں نے فائرنگ کی اور پھر ارٹلری سے گولہ باری شروع کردی۔ اس حملے میں 7شہری شہید اور 15 سے زیادہ زخمی بتائے جارہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس مسئلے پر وزیر دفاع خواجہ محمدآصف نے کہا کہ افغان عبوری حکومت نے فائرنگ کے واقعے کو چمن بارڈر پر تعینات افغان فورسز کی غلطی قرار دے کر آئندہ کیلئے اس طرح کے اقدامات کوروکنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع کو گزشتہ ایک برس کے دوران بلوچستان اور کے پی کے میں قبائلی اضلاع کے افغان سرحد سے جڑے علاقوں میں پاک فوج پر افغانستان کے اندر سے کی جانیوالی فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونیوالے پاکستانی جوانوں کی تفصیل بھی بتانی چاہیے تھی ۔پاکستا ن آخر کب تک اس طرح کی یقین دہانیوں پر افغانستان کے اندر سے کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں اپنے شہریوں اور فوج کے جوانوں کی قربانیاں دیتا رہے گا اور اب توپ خانے کا استعمال بھی شروع ہوگیا ہے۔ یہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی افواج کے انخلاء کے باوجود افغان فورسز میں بھارت نواز و بھارت کے اشاروں پر چلنے والے موجود ہیں جو موقع ملتے ہی کسی نہ کسی بہانے پاکستانیوں کا خون بہانے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ سلسلہ اب رک جانا چاہیے۔