ریکوڈک منصوبہ کے مخالفین کو بے نقاب کرنے کا وقت آن پہنچا



… قومی افق …کوئٹہ کی ڈائری 

فیصل ادریس بٹ ……………
اب بہت ہو گیا ریکوڈک منصوبہ کی مخالفت کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ آج جب پاکستان کے ڈیفالٹ کے اندیشے  زیر بحث ہیں بلوچستان کے صرف ایک منصوبہ ریکوڈک پر خوش اسلوبی سے عملدرآمد یقینی بنائے جانے پر ناصرف ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہو سکتے ہیں بلکہ ڈیفالٹ کی فہرست سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا نام نکلوا سکتے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے جب سرمایہ کاری اور ریکوڈک کے سلسلے میں قانون سازی کی منظوری دی تو مولانا فضل الرحمن اور حکومتی اتحادی اختر مینگل کی جماعتوں نے کس کے اشارے پر اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا؟ اب قوم مینگل اور فضل الرحمن سے اس ملک دشمنی کی وجہ جاننا چاہتی ہے۔  
بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں سونے، چاندی، تانبے، کوئلے، جپسم، گرینائیٹ، ماربل، کاپر، قدرتی گیس اور تیل کے علاوہ بے شمار معدنیات پائی جاتی ہیں جنکی مالیت اربوں کھربوں ڈالر ہے مگر یہ ہماری نااہلی ہے کہ ہم یہ معدنیات نکالنے میں ناکام ہیں۔ صرف قدرتی گیس، کوئلے اور ماربل کے ذخائر پر تھوڑا بہت کام کیا گیا جس کی بدولت آج کروڑوں پاکستانی ان سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
بلوچستان میں چھپے ان خزانوں میں سے ایک خزانہ ریکوڈک میں موجود سونے اور تانبے کے یہ بھاری ذخائر بھی ہیں جن کو دریافت ہونے کے بعد بلوچستان میں سیاسی رسہ کشی اور حب زر کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا کی گئی کہ یہاں کے قوم پرستوں، حکمرانوں اور لینڈ لارڈ کے درمیان اس قدرتی دولت کے حصے بخرے کرنے کی جنگ چھڑ گئی اور یہ کام تعطل کا شکار رہا۔ اب کینیڈین بیرک گولڈ کمپنی نے یہاں سرمایہ کاری کرنے اور یہ ذخائر استعمال میں لانے کیلئے نکالنے کا معاہدہ کیا۔ مگر یہ منصوبہ بھی ابتدا میں ہی باہمی تنازعات اور چپقلش کا شکار ہو گیا۔
کبھی وفاق اور صوبے کے درمیان یہ منصوبہ مالی منافع اور آمدنی کی تقسیم میں کمی و زیادتی کے نام پر تنازعہ بنا کبھی قوم پرست تنظیموں نے اسے بلوچستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا نام دے کر متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔بات یہاں تک پہنچی کہ غیر ملکی کمپنی نے معاہدے میں حد سے زیادہ تاخیر ہونے اور کام نہ شروع کرنے پر پاکستان کے خلاف عالمی ثالثی کونسل میں مقدمہ کر دیا ۔جس میں کامیابی پر پاکستان کو تاخیر کرنے پر گیارہ ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ شرط یہ رکھی گئی کہ پاکستان اگر اس بھاری جرمانے سے بچنا چاہتا ہے تو اسے 30 دسمبر 2022ء سے قبل یہ معاہدہ شروع کرنا ہوگا۔ساتھ ہی کمپنی نے مزید مشکلات سے بچنے کیلئے پاکستان سے  قانون سازی کا مطالبہ بھی کیا۔
 بعض تحفظات کے حوالے سے عدالت عالیہ میںبھی درخواستوںپرفیصلہ دیدیا گیا ہے۔ درخواست دینے والوں نے منافع کی تقسیم اور صوبے کے مفادات ،ماحول اور آبی وسائل کے استعمال کے حوالے سے نکات اٹھائے تھے۔ جنہیں سننے کے بعد عدالت عالیہ نے پاکستان کو گیارہ ارب کے بھاری جرمانے سے بچانے اور دس ارب ڈ الر کی بھرپور سرمایہ کاری کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس منصوبے کو پاکستان اور بلوچستان کے لئے منافع بخش قرار دیتے ہوئے فیصلہ دے دیاکہ یہ منصوبہ درست ہے اور اس میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ 
اس طرح اس منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہونے سے امید ہے کہ جلد ہی کام شروع ہوگا جس سے بلوچستان کو بے شمار فوائد حاصل ہونگے۔ عدالت کے حکم کے تحت اس منصوبے سے بلوچستان کے 8 ہزار افراد کو روزگار کے مواقع حاصل ہونگے۔ کمپنی وہاں تمام ضروری وسائل جن میں لیبر کو بہتر معاوضہ رہائش اور آمدورفت کے لئے سڑکوں کی تعمیر، سکول و طبی مراکز قائم کرے گی۔ زیر زمین میٹھا قابل استعمال پانی صنعتی مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ 
اس منصوبے سے حاصل شدہ رقم کا25 فیصد بلوچستان کو 25 فیصد حکومت پاکستان کو اور 50 فیصد کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کو ملے گا۔ یہ منصوبہ 5 سے 6 سال میں پیداوار شروع کر دے گا۔ اس منصوبے کے حوالے سے بلوچستان کے مقامی سیاستدان اور دانشور کچھ تحفظات بھی رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ چاغی کے علاقے ریکوڈک میں موجود ذخائر کی مالیت ایک ہزار ارب امریکی ڈالر ہے اور یہ 6 سو کلو میٹر کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں جو تین سو سال تک استعمال ہو سکتے ہیں۔ معاہدہ کرتے ہوئے کمپنی کو پابند کیا جاتا کہ وہ اسی علاقے میں سونے اور تانبے کو الگ الگ کرنے کی ریفائنری لگائے،تاکہ قیمتی ذخیرہ کے حقائق سے متعلق عوام کو آگہی رہے۔
ریکوڈک کے قریب ہی سیندک کے مقام پر بھی ایک چینی کمپنی سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش میں دس برس سے کام کر رہی ہے۔ ماہرین ارضیات کے نزدیک چاغی کا یہ علاقہ معدنیات سے بھرا ایک ایسا شوکیس ہے جس پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اچھے کام کو بھی بُرے طریقے سے شروع کرنے کی روایت باقی ہے۔ اگر ہم لاحاصل بحث اور قانونی موشگافیوں میں الجھے رہے، نفرت اور تعصب کی بنیاد پر اچھے کاموں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے تو پھر آئندہ بھی ہر صوبے کے ساتھ یہی کچھ ہوگا جو ریکوڈک منصوبے کے ساتھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے۔ریکوڈک معاہدہ پہلے امریکن کمپنی کے ساتھ ہوا مگر لٹکا رہا اس نے تنگ آکر اپنے شیئرز آسٹریلوی کمپنی ’’ٹیتھیان کو پر‘‘کو فروخت کر دیئے تھے۔اگر کامیابی  کے ساتھ  یہ منصوبہ شروع ہو جائے تو نا صرف بلوچستان کی محرومیاں وسائل اورخوشحالی میں بدل جائیں گی بلکہ اپنے بھائی صوبے کی محرومیاں بھی خاطر خواہ ختم کرنے میں کردار ادا کر سکے گا۔ اس وقت عبدالقدوس بزنجو اُن کی اتحادی پارٹیز بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں کو وفاق کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر بلوچستان کی خوشحالی کے لئے کام کرنا چاہئے اور فضل الرحمن اور مینگل ایجنڈے کو رد کر دینا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...