7 اکتوبر سے اب تک اسرائیل جو کچھ غزہ میں کر رہا ہے کوئی نئی بات نہیں اپنے غاصبانہ قبضے سے لے کر آج تک اسرائیل صہیونی ریاست نے لاکھوں فلسطینی مرد اور عورتوں اور بچوں کو شہید کیا۔ ان مظلوم فلسطینی عوام کی پکار آ ہ فغاں مسلم ممالک کے ایوانوں تک تو پہنچی ہے مگر مذمتی قراردادوں کی باز گشت بن کر واپس لوٹ جاتی ہے آج بھی وہی روایتی سلسلہ جاری ہے و ساری ہے اسرائیل نے ہزاروں بچوں کو شہید کرکے اپنی وحشیانہ فضائی اور زمینی بمباری سے غزہ میں ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے مگر اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ او آئی سی ہو یا پھر اقوام متحدہ سب کے سب اسرائیل کے آگے بے بس نظر آتے ہیں فلسطینیوں کی رحم دلی اور انسان دوستی بدقسمتی کا آ غا ز اس وقت ہی ہو گیا تھا جب 1943ء میں ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام شروع کیا جوان کیا بچے کیا بوڑھے کیا سب ہٹلر کے ہاتھوں مارے گئے کچھ تو جان بچا کر مختلف ممالک میں نکلے ایک بڑی تعداد پناہ گزینوں صورت میں فلسطین پہنچی ان یہودیوں کے جہازوں پر لکھا تھا ہٹلر نے ہمارے گھر بار تباہ کر دیے آپ ہماری امید کو نہ کچلنا یہ وھ وہی یہود ی تھے جو منتیں التجائیں رحم کی بھیک مانگتے فلسطین پہنچے آج اسرائیل اپنا ماضی بھول گیا بھول کر جلاد بن گیا۔ جلاد صفت اسرائیل کی مدد کے لیے امریکہ برطانیہ فرانس کے بحری بیڑے پہنچ گئے۔ دو ارب مسلمان 57 اسلامی ممالک او ائی سی اور عرب لیگ بھی اسرائیل کے ظلم و ستم کو نہ روک سکے کیا اسلامی ممالک اسرائیل کی مذمت کرتے رہیں گے یا پھر اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بحث میں الجھے رہیں گے صحیح مسلم کی حدیث ہے نبی اکرم نے فرمایا جو کوئی بھی تم میں سے برائی دیکھے تو اپنے ہاتھ سے روکے اور اگر وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اسے اپنی زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو پھر اسے اپنے دل میں برا خیال کرے اور یہ کمزور ترین ایمان ردجہ ہے آج ہم مسلم ممالک کا جو رد عمل دیکھ رہے ہیں اس سے احساس ہوتا ہے کہ ہم ایمان کے دوسرے درجے پر فائض ہیں یا ایمان کے دوسرے درجے پر عمل پیرا ہیں پھر ہم یوں کہہ سکتے ہیں اگر اب بھی مسلم ممالک نے سخت ردعمل نہ دیا تو پھر شاید مسلم دنیا ایمان کے تیسرے درجے پر پہنچ جائے پانچ نومبر کو انتہا پسند اسرائیلی وزیر امیچای ذیلی یاہو کی طرف غزہ پر ا ایٹمی حملے کی دھمکی نے انسان دوست حلقوں کو حیران اور پریشان کر دیا یہ دھمکی عالمی امن کے لیے خطرہ ہے اسرائیل کا یہ پاگل پن اور جارحیت کا رقص جاری رہا تو اسرائیل کی بدمعاشی کا اندازہ ان کے ترجمان کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اسرائیل کے دفاع کے لیے اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں تو آپ کی اخلاقیات میں کچھ خرابیاں ہیں انسانیت کی دھجیاں اڑانے والوں کو اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے شرم آنی چاہیے انسانیت کا خون کرنے والوں کو انسانیت کا نام لیتے ہوئے بھی اپنے مردار ضمیر سے سوال کرنا چاہیے کیا ہم اخلاقیات کے انسانیت کے عمل بردار ہیں یا قتل عام نسل کشی بچوں اور بے گناہ خواتین کو مریضوں کو زخمیوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں فی الحال تو امت مسلمہ یعنی تمام مسلمان ممالک عالمی اداروں اور عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکے داروں کی طرف دیکھ رہے ہیں جو خود مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کے شرکت دار بنے ہوئے ہیں پوری دنیا میں اسرائیلی بربریت کے خلاف لوگ سڑکوں پر ہیں صرف مسلمان ہی نہیں جب سے اسرائیلی نے فلسطین پر بربیت کا آغاز کیا تب سے ہی دنیا بھر کے عیسائیوں اسرائیلیوں کی سفاکیت کے خلاف سڑکوں پر ہیں بلکہ اب امریکی یہودی بھی اتجاجی مطزاروں میں شامل ہو گئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کا ساتھ دینے والے ممالک کی عوام اپنی حکومتوں کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں جن ممالک میں عوام اپنی حکومتوں کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دینے پر سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں ان کا ذکر طویل ہے لہذا ما سوائے چند طاقتوں کے جن کے مفادات اسرائیل کے ساتھ جڑے ہیں ان کا واحد مقصد مسلمانوں کی نسل کشی اور انہیں کمزور کرنا ہے وہ طاقتیں اسرائیل کی بربیت اور ایٹم بم چلانے کے عزائم سامنے انے کے باوجود خاموش ہیں اور ظلم کی انتہا کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کے لیے 14 ملین ڈالر کی ملٹری ایڈز پر امریکی عوام نے بھی شیم شیم کے نعرے لگ رہے ہیں نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیل فاسفورس بم بھی استعمال کر رہا ہے قیامتِ برپا ہے تیسری نسل اقوام متحدہ کو جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ اپنی قراردادوں پر عمل کرائیں مگر اس کے باوجود یہ عالمی ادارے بے بس اور لاچار ہیں اور ظاہر اور رائے کہ بڑی طاقتوں نے مسلمان ممالک کو کمزور کرنے اور تباہ و برباد کرنے کے لیے اس ادارے کا سہارا لیا ہوا ہے۔ عراق لیبیا افغانستان سمیت کتنے ہی اسلامی ممالک ہیں جن پر حملہ اور ہونے کے لیے منٹوں میں قرارداد منظور ہوئیں اور اگلے ہی لمحے ان ممالک پر بمبوں کی بارش کر دی گئی۔ نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے آج کے دور میں عالمی ادارے اور بڑی طاقتیں انصاف کرنے اور مظلوم کا ساتھ دینے سے گریزاں ہیں ۔
٭…٭…٭