16دسمبر ہماری قومی تاریخ کا ایک سیاہ اور بدقسمت ترین دن ہے اس دن1971ء میں ہمارا پیارا وطن دولخت ہوگیا اورمشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، قائدکا حاصل کیا ہوا پاکستان آزادی کے محض24سال بعد ہی دولخت ہوگیا، 14 اگست 1947ء کولاکھوں قربانیوںکی بدولت حاصل کیاگیا آزاد ملک فقط 24 سال ہی قائم رہ سکا، وہ نظریہ جو قیام پاکستان کا بنیادی سبب بنا دشمن نے اسے تار تار کردیا، سب سے بڑی بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان(سابقہ مشرقی بنگال) جہاں سے پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ نے جنم لیا اور جہاں سے تعلق رکھنے والی کئی قدآور شخصیات آزادی کے سفر میں قائداعظم محمدعلی جناح کے ساتھ تھیں اسی مشرقی پاکستان نے ایک علیحدہ ملک کے طو پر الگ ہونے کا فیصلہ کیا، دنیامیں شاید ہی کوئی اور ایسی مثال ملتی جو جہاں ایک اس طرح کے مضبوط نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والا ملک آزادی کے چند سالوںبعد ہی دولخت ہوگیا ہو،16 دسمبر 1971ء کو ہمارے ساتھ کیا ہوا اور اسکے مضمرات کیا ہیں اس صورتحال کی ذمہ دار یقینی طور پر آج کی کی نسل نہیں بلکہ ہمارے گزشتہ پچاس سال کے دوران برسراقتدار رہنے والے حکمران اور اشرافیہ ہے جن کی یہ بنیادی ذمہ داری تھی کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو اس بارے میں آگاہ رکھیں جیسا کہ بنگلہ دیش کے حکمرانوں اور سیاسی راہنمائوں نے کیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں بہت سے حقائق واضح کرکے قوم کے سامنے پیش کئے جاتے رہے ہیں جس میں دشمنوں کے علاوہ ہمارے اپنے ہی چند نام نہاد دانشور، سیاستدان اور اعلیٰ سول وفوجی حکام شامل ہیں، اس کا اثریہ ہواکہ آج ہمارے ذہنوںمیں بہت سے ابہام ہیںکچھ لوگ1971ء کے سانحے کوصرف پاکستان کی فوجی شکست سمجھتے اور بتاتے ہیں جبکہ بعض کے ذہنوںمیں اس کی وجہ ملک میںغیرجمہوری حکومتوںکا قیام تھا، آج تک اس بارے میں کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی کہ قوم کو صحیح معنوںمیں باقاعدہ ذہن سازی کی جائے، سانحہ1971ء کے بعد قائم کئے جانے والے حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ باقاعدہ طور پر آج تکPublishنہیں کی گئی، اگر اس رپورٹ کو سنجیدہ لے کر اس میں دی گئی تجاویز پر عملدرآمد کرلیاجاتا تو آج کم ازکم موجودہ پاکستان میں ہی حالات مختلف ہوتے۔ قوموںکی زندگی میں اس طرح کے سانحے نہ تو روزمرہ ہوتے ہیں اورنہ ہی انہیں عام لینا چاہیے، سانحہ مشرقی پاکستان کی وجوہات اور عوامل کو جاننا بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں باقاعدہ مباحثوںکی ضرورت ہے جوحکومتی سرپرستی میں ہونے چاہئیں جبکہ میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، مشرقی پاکستان کا خطہ اور وہاں کے لوگ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور1971ء کے بہت سے کردار اس سے پہلے ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کیلئے کام کرتے نظرآتے تھے جس کی سب سے بڑی مثال1965ء کے صدارتی انتخابات تھے جن میں ان رہنماؤںکی اکثریت جس میں شیخ مجیب الرحمن اورمولانابھاشالی بھی شامل تھے انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا جوکہ ایک متحد اور مستحکم پاکستان کی علامت تھیں۔ہندوستان نے اس پورے عرصہ کے دوران ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مشرقی پاکستان کے حالات خراب کئے اور جہاں کے عوام کے دلوںمیںمغربی پاکستان کے متعلق زہر بھرا اور ان کی ذہن سازی کی، دشمن نے جہاں ایسا کیا جس کی اس سے امید بھی رکھنی چاہیے تھی کیونکہ وہ دشمن تھا اور آج بھی ہے مگر ہمارے اس وقت کے حکمرانوں نے اس کا توڑکرنے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جس کی بدولت ہمیں16دسمبر 1971ء کا بھیانک دن دیکھنا پڑا، پاکستان کی فوج نے قلیل تعداد اور انتہائی نامساعد حالات کے باوجود بہت بہادری سے اندرونی اوربیرونی دشمنوںکامقابلہ کیا جس کا اعتراف خود پاکستان اور غیرجانبدار ذرائع نے بھی بارہا کیا ہے ہمارے افسروں اور جوانوں کی بہادری کے قصے آج بھی کتابوںمیںموجود ہیں پاکستان کی فوج پرانسانی حقوق کی پامالی اور عورتوں سے زیادتی کے جھوٹے اورمن گھڑت الزامات کی بوچھاڑ کی گئی جس کا حقیقت سے دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔اسی طرح جنگی قیدیوں اورہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں بھی من گھڑت اورجھوٹا پراپیگنڈاکیاگیا جس کا توڑکرنے کیلئے بھی کوئی باقاعدہ سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، مشرقی پاکستان کی ترقی کیلئے بھی کوئی منصوبہ بندی اور سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جس کیو جہ سے پاکستان دشمن قوتوں کو سازشیںکرنے کا بھرپور موقع ملا اوریہ لوگوں کے ذہنوںمیںمغربی پاکستان کے بارے میں منفی سوچ کوابھارنے میں بہت موثرثابت ہوا۔
ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان کے زخم ہروقت تازہ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر زخم تازہ رہے توبدلے کا جذبہ بھی تازہ رہتاہے، بدلے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دشمن پر حملہ کردیں یا ایک اورجنگ میں داخل ہوجائیں، بدلے کا جذبہ ہمارے خون اور جذبوں کو بروقت گرماکے رکھتاہے اور ہم ہردم دشمن کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سامناکرنے کیلئے تیار رہتے ہیں مزید برآں یہ غیرت، آبرو اورخودمختاری کیلئے بھی ضروری ہے۔