قومی رقص کی تلاش کاسفر

کہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے جذبے کے تابع ہوکرانسان جب کوئی منظم حرکات وسکنات کرے توا نھیںرقص کا نام دیاجاتا ہے۔اقوام ِعالم کی تاریخ کا مطالعہ کریں توکہیں نہ کہیں اس کا تعلق انسانوں کے عقائد ونظریات سے بھی ہے۔ حرکت اورجذبہ پیداکرنے کا یہ والہانہ انداز قدیم سماج میں ایک آرٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔۔ہندومت میں کرشن بھگتی کی روایت کے زیراثر گوپیاں کرشن کی مورتی کے سامنے رقص کرکے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھیں،یہ عبادت کی ایک خالص شکل تھی۔زرعی معاشروں میں فصلوں کی کٹائی پر لوگ ناچ کر خوشی کااظہار کرتے تھے۔صدیوں کے تہذیبی سفرمیں ’’کتھک رقص‘‘ ہندومسلم تہذیب کے اشتراک سے وجود میں آیا۔اسلام میں رقص کی ممانعت ہے،لیکن بعدمیں مسلم معاشروں میں اس چلن عام تھا،اسے بظاہر ایرانیوں کے تعصب اورترکوں کی دھاندلی بازی کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے، مسلم صوفیا کے ہاں سماع کے دوران میں رقص کی سی کیفیت دراصل روح سے جسم کے فرار کی کوشش ہے۔اس لیے اختلاف کے باوجود بعض مسلم سکالرز کے نزدیک رقص کے پس منظر میں ایک روحانی جذبہ بھی محرک بنتاہے۔صوفیاکے ہاںیہ وجد کی ایک صورت ہے۔آخر رقص ِرومی بھی تو ایک مخصوص پس منظررکھتا ہے۔ بہرحال یہ سمجھ لیا جائے کہ رقص کی خاص کیفیت ان لوگوں میں پیداہوتی ہے جو مسرت وانبساط کے موقع پر اس اظہارکرتے ہیں،اس کا تعلق عقلی دلائل کی دنیاسے نہیں۔آج کے کالم کامقصد پیارے احباب کو رقص و سرودکی اہمیت پرآمادہ کرنا ہرگزنہیں۔بس ایک خاص خیال کے تحت ہم نے دنیامیں رقص کی مختلف اقسام کے بارے میں جاننے کی خاصی جستجوکی۔تلاش کا یہ عمل کسی خاص منظم طریقے سے نہ تھا بس مختلف رنگوں کی منقش لیکن بے ترتیب تصویریں ہمارے سامنے آتی رہیں۔ہم نے اس بات پر غور کیا کہ جہاں چنبیلی ہمارا قومی پھول؛مارخورقومی جانور اور ہاکی قومی کھیل ہے ، ہمارا ایک قومی رقص بھی تو ہونا چاہیے۔ہمیں فوری طور پراپنے ہاں کوئی ایسی مثال نہ ملی توسوچا ہمسایوں سے رجوع کیاجائے۔آخران کے ہاں بھی تو رقص کی مختلف قسمیں موجودہیں۔آج سے چندسال پہلے کی بات کہ جب افغانستان میںملاراکٹی نام کے ایک صاحب لاشوں کا رقص دیکھا کرتے تھے۔اس کی مثال تو پرانے زمانوں کے گلیڈی ایٹرز (Gladiators)سے بھی بڑھ کر بھیانک تھی۔پرانی رومن سلطنت میں لوگوں کو آمنے سامنے مرتے دم تک لڑنے پر مجبورکیاجاتا تھا۔یہاں اس سے بھی زیادہ دلچسپی کا مواد یہ ہے کہ مارنے کے بعد انسانی لاشوں کے سرکاٹ کر گردن میںپٹرول بھرکر آگ لگادی جاتی تھی؛ جس سے لاش رقص کرتی تھی۔ہم نے خوف اور دہشت کے مارے ایک جھرجھری سی لی ۔ہمارا متخیلہ نے پروازکی اور آن واحد میں افغانستان سے مسلم فلسطین کی معدوم ہوتی ہوئی سر زمین میں جاپہنچی۔ہم نے سنا کہ جنگی جہازوں کی مسلسل بم باری اور جنگ کے خوف میں مبتلاغزہ کے معصوم بچوں کے ذہنی دباؤ کو دورکرنے کے لیے ایک فلسطینی امدادی تنظیم نے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں میں تفریحی سرگرمیوں کا انعقاد کیا ہے۔ اس کا اہتمام کچھ یوں کیا گیا کہ عارضی جنگ بندی کے دوران’’ خان یونس‘‘ کے علاقے میں مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوئے،بچوں نے مختلف گانوں کی دھن پر رقص بھی کیا۔کہاجاتا ہے کہ سیکڑوں فلسطینی بچوں کے چہروں پر ہنسی لوٹ آئی۔واضح ہوکہ یہ بچے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینی عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔جبرکی حالت میں مسکرانے کی ایک کوشش کے طورپرکیے گئے اس رقص کو کیا کہاجائے۔یہ سب دیکھ کرہمیں فقیر حسین ساگا مرحوم یاد آگئے،کسی زمانے میں وہ ٹی وی پر مورناچ کیاکرتے تھے۔رقص کے دوران شہیدپائلٹ افسر بیٹے کی تصویر بھی ساگا صاحب کے ہاتھوں میں ہوتی تھی۔ تازہ اخبار ہمارے سامنے رکھا تھا ،اس پراچانک نظرپڑی توکچھ اورہی قسم کی خبریں درج تھیں۔ ایک اطلاع کے مطابق ان دنوں فلپائن میں ایک ٹریفک سارجنٹ نے کرسمس کی مناسبت سے سانتا کلاز کا روپ دھار رکھا ہے۔وہ سڑک پر ڈیوٹی کے دوران اپنے ملازمتی امور بھی انجام دیتا ہے اور بڑوں اور بچوں کے لیے تفریح کاباعث بھی بناہوا ہے۔اس سے پہلے ہم ایک ٹریفک کانسٹیبل کو بھی دیکھ چکے ہیں جو رقص کرتے ہوئے ٹریفک کو کنٹرول کرتا ہے۔ لوگ اس کی خوش طبعی سے متاثر ہوتے ہیں لیکن مجال ہے جو کسی بھی قسم کے اصول کی خلاف ورزی کریں۔اہل نظر کے مشرب میں رونا دھونا فضول ہے سو ہمیں ہرحالت میں ہنستے ہنسانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ رقص کی یہ ساری قسمیں ہمیں تو اپنی پیاری قوم کے لیے غیر موزوں لگیں۔ہم نے مختلف ملکوں میں رائج رقص کی مختلف اقسام کی تلاش کا سفرجاری رکھا،مشرق بعید سے جاپان گئے، وہاں سے چین،افریقہ اور یورپ سے ہوتے ہوئے ترکی جاپہنچے۔ ترکی کے ساتھ ہمیں ایک خاص عقیدت ہے،ہماری مائیں کسی زمانے میں ہمیں ’’جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘کی نصیحت کیا کرتی تھیں۔یہاں ایک خاص قسم کا’’کول بستی ‘‘رقص کیاجاتا ہے۔ اصل میں یہ ترکی کے شمال مغربی علاقے میں بحیرہ اسود کے ساحل پر گیرسن کی بندرگاہ میں 1930ء کی دہائی میں تخلیق کیا گیا تھا۔ اس کا پس منظرکچھ یوں ہے کہ ایک بحری جہاز میں کچھ چور رنگے ہاتھوں واردات کرتے ہوئے پکڑ ے گئے۔پولیس نے موقع ِواردات پر پہنچ کر گھیرا ڈالا توانھوں نے بے اختیار رقص کرنا شروع کردیا۔رقص کرتے ہوئے انھوں نے خودساختہ طور پربنائی گئی دھن پر ایک گیت بھی گایا،جن کے بول کچھ یوں تھے۔’’وہ آئے، انھوں نے ہمیں پکڑا، انھوں نے ہمیں مارا‘‘۔

ڈاکٹر افتخار شفیع- سرمایہ¿ افتخار

ای پیپر دی نیشن