اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو جواب جمع کرانے کے لیے یکم جنوری تک مہلت دے دی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا کہنا ہے کہ یکم جنوری کے بعد کوئی مہلت نہیں دی جائے گی۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کی اوپن سماعت کی درخواست منظور کرلی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرصدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا، جس میں جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس نعیم اختر افغان شریک ہوئے۔ اجلاس میں جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف شکایات کا جائزہ لیا گیا، اور جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل خواجہ حارث سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوئے۔ ذرائع کے مطابق خواجہ حارث نے جوڈیشل کونسل سے کارروائی ملتوی کرنے کی استدعا کی اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں کل آئینی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر ہیں، مناسب ہوگا سپریم کورٹ کے فیصلے تک سماعت نہ کی جائے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کی اوپن سماعت کی درخواست منظور کرلی۔ اوپن کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ آپ نے کہا اوپن کارروائی ہو ہم نے کر دی، اب یہ نہ بتائیں کہ آپ نے متعدد درخواستیں دائر کیں، یہ بتائیں کیا چاہیے ہم ابھی دیتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بتائیں کیا دستاویز چاہیے، آپ کے خطوط ریکارڈ کا حصہ نہیں تو کیسے دیکھیں؟۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی نوٹنگ اور جسٹس سردار طارق کی رائے نہیں دی گئی، جس پر چیف جسٹس نے سیکرٹری کونسل کو ریکارڈ فائل خواجہ حارث کو دینے کی ہدایت کی اور خواجہ حارث نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا لکھا نوٹ پڑھا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اس نوٹ میں تو صرف شکایت پر رائے دینے کا کہا گیا ہے، یہ تو میں وہ پڑھ رہا ہوں جو مجھے پڑھایا جا رہا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں کہ پڑھایا جا رہا ہے، دیکھیں ہم شفافیت پر یقین رکھتے ہیں، آپ کو سب اوپن چاہیے تھا ہم نے کر دیا، اب سب اوپنلی پڑھیں، یہ لفظ ٹھیک نہیں کہ ہم آپ کو پڑھا رہے ہیں۔ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ وہ اپنی شکایت پر رہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے ریکارڈ کی کاپی چاہیے تاکہ شوکاز کا جواب دے سکوں، زبانی تو پڑھ کر سب بھول جاتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ کریں گے کہ آپ کو ریکارڈ کاپی دینی ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ آپ کا خط ہم تک پہنچنے سے پہلے سوشل میڈیا پر آجاتا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر ہر ایک چیز سوشل میڈیا پر چلے گی، آپ نے ہمارے سیکرٹری پر الزام لگایا یہ وہاں سے خط لیک ہوتا ہے، سیکرٹری نے پوچھنے پر بتایا وہ اس میڈیا کے نمائندے کو جانتی تک نہیں۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کونسل کی سیکرٹری والے الزام پر معذرت کر چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم محتاط ہوگئے کہ باقی ریکارڈ بھی دیا تو سوشل میڈیا پر نہ آجائے، ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کو دلائل سے روک دیں یا ایک اور نوٹس جاری کردیں، سپریم جوڈیشل کونسل مس کنڈکٹ کی انکوائری کرتی ہے، وکالت کی گنجائش نہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ پہلی سماعت پر بھی ہمیں بلایا گیا، معلوم نہیں الزامات کیا ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے جسٹس نقوی کو بلایا نہیں تھا صرف بیٹھنے کی اجازت دی تھی، نہیں چاہتا تھا کہ جسٹس نقوی کی پیٹھ پیچھے کوئی کارروائی ہو، میرے خلاف ریفرنس آیا تو کونسل نے مجھے ایک بار بھی نہیں بلایا، جو میرے ساتھ ہوا نہیں چاہتا کسی اور کے ساتھ بھی ہو۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ روز کہتے ہیں آپ کی عزت ہماری عزت ہے، مجھے صرف ریکارڈ دے دیں تا کہ جواب دوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے میڈیا کو ریکارڈ پڑھوانا ہے تو پڑھا دیجیے گا، شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دینا تو بتا دیں، یہ اجازت نہیں دوں گا آپ جو مرضی کہتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے آپ کو دو خطوط لکھے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کو خط آپ کو خط لگا رکھی ہے؟۔ میں سپریم جوڈیشل کونسل نہیں، صرف اس کا ایک ممبر ہوں، جو درخواست کرنی ہے سپریم جوڈیشل کونسل سے کریں مجھ سے نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ادھر ادھر کی باتیں کرنی ہیں تو کریں ہم کارروائی آگے بڑھاتے ہیں۔ خواجہ حارث نے استدعا کی کہ شوکاز کا جواب دینے کے لیے کچھ دن دے دیں، جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کیلئے جسٹس مظاہر نقوی کو وقت دینے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وقت دیں گے لیکن یہ بار بار نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کے سربراہ حسن رضا پاشا سے سوال کیا کہ آپ کے گواہان کون ہیں؟۔ جس پر انہوں نے آڈیوز توڑ مروڑ کر بنا دیتا ہے، صرف گواہان بتائیں۔ حسن رضا پاشا نے گواہان میں آڈیو لیکس، پراپرٹی دستاویزات اور ہائوسنگ سوسائٹیز کے مالکان کے نام دیے۔ بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی سے یکم جنوری تک جواب مانگ لیا اور جواب کے ہمراہ گواہان کی فہرست بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔ کونسل کو صرف معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ کونسل نے شکایت کنندگان کے گواہان کی فہرست اٹارنی جنرل کو دیدی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ گواہان کا شاید اضافہ ہو۔ کونسل نے اپنے حکمنامہ میں کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی یکم جنوری تک شوکاز نوٹس پر جواب دیں، جسٹس مظاہر نقوی کو جواب جمع کرانے کیلئے یکم جنوری کے بعد مہلت نہیں دیں گے۔ اٹارنی جنرل اگر چاہیں تو گواہان کی فہرست پیش کر سکتے ہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی کے شوکاز نوٹس کے جواب کی بنیاد پر طے کریں گے گواہان کو طلب کرنا ہے یا نہیں۔ حکمنامہ میں مزید کہا گیا کہ اگر جسٹس مظاہر نقوی کے جواب سے مطمئن ہوئے تو کارروائی ختم کر دیں گے۔ اگر تحریری جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو گواہان کو طلب کریں گے۔ جسٹس مظاہر نقوی گواہان کی فہرست دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔ کونسل کی آئندہ سماعت گیارہ جنوری ڈھائی بجے ہوگی۔