اسلام آباد؍ لاہور (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ+ وقائع نگار+ نمائندہ نوائے وقت) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی عدالت نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سائفر کیس کا ٹرائل فوری روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے سائفر کیس کے کمپلیننٹ سابق سیکرٹری داخلہ یوسف کھوکھر کو جواب کیلئے نوٹس جاری کردیے اور رپورٹ طلب کرلی ہے۔ گذشتہ روز سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے لئے قانونی پراسیس سے متعلق سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران سکندر ذوالقرنین سلیم ایڈووکیٹ عدالت پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ جج کے پاس جیل ٹرائل کی منظوری کا نوٹیفکیشن ہی نہیں تھا، جب چار دسمبر کو فرد جرم کی تاریخ مقرر کرنے کا آرڈر پاس کیا، جج نے آرڈر میں لکھا کہ نوٹیفکیشن جمع کرا دیا جائے، ہمارا موقف ہے کہ جب جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن ہی جج کے سامنے نہیں تھا تو وہ سماعت کرکے آرڈر کیسے پاس کر سکتے تھے؟۔ عدالت نے استفسار کیا وفاقی حکومت کا جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن کدھر ہے؟۔ کیا وہ بعد میں دیا گیا؟۔ وکیل نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم۔ عدالت نے کہا آپ کا جیل ٹرائل ہو رہا ہے، آپ کو کیوں نہیں معلوم؟۔ وکیل نے کہا یہ حکومت کا کام ہے، جج کا نہیں کہ وہ کورٹ کے لیے جگہ کا انتخاب کرے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ یہ جج کا ہی اختیار ہے، وہ ٹرائل کے لیے جیل کا انتخاب کر سکتا ہے مگر وہ اوپن کورٹ ہونی چاہیے۔ پٹیشنر کے وکیل نے ٹرائل کورٹ کی کارروائی پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے کہا کہ رپورٹ آ جائے پھر اس پر فیصلہ کریں گے۔ عدالت نے مرکزی درخواست اور حکم امتناع کی درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 20 دسمبر تک کیلئے ملتوی کر دی۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ رجسٹرار آفس نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کے خلاف عدم اعتماد کی درخواست پر اعتراضات عائدکردیے۔ رجسٹرار آفس کا کہنا ہے کہ درخواست میں قابل اعتراض اور عدلیہ کو سکینڈلائز کرنے والی لینگویج استعمال کی گئی، مقدمات کی منتقلی سے متعلق ایسی درخواست کو انٹرٹین نہیں کیا جا سکتا۔ ادھر آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس میں کے استغاثہ کی جانب سے دائر14 اے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کیمرہ ٹرائل کا حکم دے دیا اور شہادتیں طلب کرلیں۔ جمعرات کو اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران ایف آئی اے پراسیکیوٹر رضوان عباسی اور دیگر کے علاوہ پی ٹی آئی وکلاء عمیر نیازی، سکندر ذوالقرنین، علی بخاری، بیرسٹر تیمور ملک اور دیگر پیش ہوئے۔ عدالت نے ایف آئی اے کی جانب سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ سیکشن 14 اے کے تحت ٹرائل خفیہ رکھنے کی درخواست پر سماعت کی۔ جس کے دوران دلائل دیتے ہوئے پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے موقف اپنایا کہ سیکشن چودہ اے کے تحت سماعت ان کیمرہ ہونی چاہیے، مقدمہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بنایا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے موقف اپنایا کہ ہم نے پہلے ہی ان کیمرہ سماعت اور جیل سماعت کا نوٹیفکیشن ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے کر اوپن ٹرائل کا حکم دیا تھا۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے ان کیمرہ ٹرائل کے حوالے سے استغاثہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی اور تفتیشی ٹیم عدالت پیش ہوئے جبکہ پی ٹی آئی وکیل شہباز کھوسہ اور دیگر عدالت پیش ہوئے۔ دوران سماعت نیب کی جانب سے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے سات روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا گئی۔ اس موقع پر وکلاء صفائی نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی۔ نیب توشہ خانہ کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ہی تفتیش کرے گا۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس کی کارروائی پرنٹ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر مکمل پابندی عائدکردی۔جاری حکمنامہ میں عدالت نے کہا اگر کوئی بھی خلاف ورزی ہوئی تو اس پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی، چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی فیملی مشروط موجود ہو گی،شرط ہو گی کہ عدالتی کاروائی کو فیملی ممبران کسی جگہ بیان نہیں کریں گے ،ٹرائل کی کارروائی کے دوران پبلک موجود نہیں ہو گی۔ سپریم کورٹ میں بانی پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت سماعت کیلئے 22 دسمبر ، ادھر لاہور ہائیکورٹ نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ میں نااہلی خلاف درخواستیں سماعت کیلیے مقرر کر دی۔پانچ رکنی لارجر بینچ الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرانے کے حکم کے خلاف بھی درخواست پر سماعت کرے گا۔