اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کے بطور جج اسلام آباد ہائی کورٹ برطرفی کے خلاف دائر آئینی درخواستوں میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور دیگر کو فریق بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جمہوریت چلتی رہے گی جبکہ چیف جسٹس نے اداروں پر الزامات لگانے پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ لوگ شخصیات کو بر ابھلا نہیں کہتے لیکن اداروں پر الزامات لگا لیتے ہیں، ادارے لوگ خراب کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ بار کے آدمی ہیں، آپ عدلیہ میں برے لوگوں کی وجہ سے عدلیہ کو برا نہیں کہہ سکتے، جرمنی میں فاشسٹ لوگوں کی وجہ سے فسطائیت تھی لیکن پھر جرمن قوم نے جرمنی کو تبدیل کردیا۔ اس موقع پر عدالت نے نشاندہی کی کہ یا تو شخصیات پر الزامات ختم کیے جائیں یا پھر انہیں فریق بنایا جائے تاکہ وہ لگائے الزامات پر اپنا موقف پیش کرسکیں۔ اس مرحلے پر وکیل نے ان شخصیات کو فریق بنانے کے لیے مہلت دینے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کا الزام پورے ادارے یا کسی شخص کے خلاف ہے، اگر الزام کسی شخصیت کے خلاف ہے تو پھر اصول یہ ہے کہ پہلے انہیں فریق بنائیں۔ چیف جسٹس نے کہا اگر آپ نے معاملے کی آئینی اور قانونی پہلو پر بات کرنی ہے تو پھر شخصیات کے نام واپس لیں، ہم روکیں گے نہیں کیونکہ جو نام آپ نے لیے وہ کل اخبارات کی بھی زینت بنیں گے، لیکن اگر نام واپس نہیں لینے تو شفافیت اور واجب عمل (ڈیو پراسس) کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں سننا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے کہا شخصیات بولتی ہیں، ادارے نہیں، ادارے برے نہیں ہوتے، لوگ برے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ایک فیشن ہوگیا ہے، وکیلوں میں بھی اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کا معاملہ ختم ہوچکا۔ اب سپریم کورٹ میں آپ کی آئینی درخواست ہے، پیٹھ پیچھے بات کرنے سے بہتر ہے سامنے کھڑا کرکے بات کرے، دنیا کا یہ اصول ہے کہ جس پر الزام لگائو اسے فریق بھی بنائے، ہم آپ کو یہ نہیں کہہ رہے کہ کس کو فریق بنانا ہے لیکن جو ہمارے سامنے فریق نہیں اس کے خلاف ہم ایک بات بھی نہیں سنیں گے، مجبور نہیں کررہے، اس بارے سوچیں اور فیصلہ کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ یہ بھی دیکھیں کہ کیا رجسٹرار کو یہ اختیار حاصل تھا کہ جج کے خلاف نوٹ لکھ کر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے۔ چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل اور بینچ سے ججوں کو الگ کرنے کی افواہوں کی بھی وضاحت کی اور کہا میں نے کسی کو بینچ سے نہیں نکالا، بینچ کمیٹی تشکیل کرتی ہے، یہ کیس سننے والے پانچ ججوں میں سے تین ریٹائر ہوچکے جبکہ جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم نے لمبے عرصے تک یہ کیس سنا، مزید اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے۔ چیف جسٹس نے کہا بینچوں کی تشکیل اتفاق رائے یا پھر جمہوری طریقے سے ہوتی ہے، جمہوریت کا زمانہ ہے، سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج کل ہر کوئی موبائل فون پکڑ کر صحافی بن جاتا ہے، صحافی کا بڑا رتبہ ہے۔ اس موقع پر حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ اس وقت جمہوریت مشکل میں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کے تعاون اور مدد سے جمہوریت چلتی رہے گی، آپ نے اسے آگے لے کر چلنا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا جج پر عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس پر ریفرنس بن سکتا ہے؟۔ حامد خان نے کہا کونسل کے سامنے ہمارا موقف بھی یہی تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے حامد خان سے استفسار کیا آپ نے ججوں پر بھی الزامات عائد کیے ہیں کیا انہیں بھی فریق بنائیں گے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا آپ کے ہر پیراگراف میں کسی نہ کسی پر الزام عائد کیا گیا ہے۔ وکلا نے عدالت کی تجویز کے مطابق درخواستوں میں تبدیلی کے لیے وقت کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا اگلے روز آخری ورکنگ ڈے ہے، اس کے بعد موسم سرما کی تعطیلات کے بعد کیس سنیں گے۔