اسلام آباد ؍ مظفر آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ‘نامہ نگار) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر پر سیاسی عزائم پر مبنی غیر قانونی اور غیر منصفانہ فیصلہ دیا ہے۔ جو کچھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہو رہا ہے پاکستان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ کشمیریوں کو طاقت کے زور پر زیر کرنے کا بھارتی خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے مفاد اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ پاکستان پر کشمیر کی وجہ سے تین بار جنگ مسلط کی گئی۔ اگر 300 مرتبہ بھی جنگ مسلط کی گئی تو ہم یہ جنگ لڑیں گے۔ کشمیر پاکستان، سری نگر یا بارہ مولا میں سے کسی کے ذہن میں کسی طرح کا خدشہ ہے تو دور کر لے۔ میری پہلی دفاعی لائن مظفر آباد میںنہیں بارہ مولا اور سری نگر میں بیٹھی ہے۔ اس خطے کی جنگ انشاء اللہ پاکستان لڑے گا۔ کسی کے ذہن میں کسی قسم کا کوئی خدشہ ہے تو وہ دور کرلے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نگران وزیراعظم نے کہا کہ ایوان میں مدعو کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پہلا نگران وزیراعظم ہوں جسے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کی دعوت دی گئی۔ ایک سال کے مختصر عرصہ میں، میں تیسرا پاکستانی لیڈر ہوں جسے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کا موقع مل رہا ہے۔ اس سے آزاد جموں و کشمیر کے عوام اور قیادت کے ساتھ مضبوط وابستگی کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام بے پناہ خوبیوں کے مالک ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں کشمیریوں کی حالت زار کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پچھلی سات دہائیوں سے حل طلب ہے اور یہ 1948 سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ سات عشروں سے زائد گزرنے کے باوجود ان قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اور اس کی بجائے بھارت کی موجودہ حکومت نے مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کو مضبوط بنانے کیلئے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اس متنازعہ علاقہ میں قانون سازی اور کئی انتظامی اقدامات کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھارت ہی تھا جو جموں و کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا اور اس وقت کے بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کئی مواقع پر اپنی مرضی سے کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بعد بھی آنے والی بھارتی حکومتوں نے جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہے۔ موجودہ بھارتی حکومت ان وعدوں سے کس طرح پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ بھارت کو اقوام متحدہ، پاکستان اور سب سے بڑھ کر کشمیری عوام کے ساتھ استصواب رائے کے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ابھی تک موجود ہیں اور وقت گزرنے سے ان کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکی قبضے کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد کے اس نازک موقع پر پاکستان کی طرف سے وہ غیرمتزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ سنگین ناانصافی کے خلاف اظہار یکجہتی کیلئے یہاں پر آئے ہیں۔ ہم سب آپ کے مقروض ہیں، برہان وانی سمیت کشمیریوں کی شہادتیں آزادی کی ضامن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقابلہ ہندوتوا نظریہ سے ہے، ہندو مذہب سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، پاکستان میں ہندو برادری پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی متزلزل نہیں ہو گی بلکہ اور مضبوط ہو گی۔ پاکستانیوں کے دل اپنے کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق اور قانون ساز اسمبلی کے سپیکر چوہدری لطیف اکبر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا جنہوں نے جمعرات کو قانون ساز اسمبلی کے سپیکر چیمبر میں ان سے ملاقات کی۔ دریں اثناء نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے جموں و کشمیر حریت رہنماؤں کے وفد نے ملاقات کی۔ رہنماؤں نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے غیر قانونی یکطرفہ اقدام کی توثیق کی مذمت کی۔ رہنماؤں نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔ رہنماؤں نے آزاد جموں و کمشیر قانون ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں نگران وزیراعظم کی پذیرائی کی۔
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر قائد اعظم کے موقف سے روگردانی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ بچار کرتے ہیں اور قائد اعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں انوار الحق کاکڑ نے مسئلہ فلسطین، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل، عام انتخابات اور غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی بے دخلی سمیت دیگر معاملات پر تفصیلی گفتگو کی۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق دو ریاستی حل کے حوالے سے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ یہ میں نہیں پوری دنیا کہہ رہی ہے، دو ریاستی حل کی بات ہم سے منسلک کردی گئی ہے، جیسے ہم نے اس کی تجویز دے دی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ جس طرح فلسطین میں بچے اور خواتین شہید کیے جارہے ہیں، بتائیں اس کا حل کیا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ کسی صورت میں اگر کوئی تجویز موجود ہے تو سامنے لائیں، فلسطینیوں سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ میں فلسطینی ہوں؟ آپ فلسطینی ہیں؟ یا کانفرنس کروانے والے فلسطینی ہیں؟۔ فلسطینیوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے یہودیوں کے ساتھ، اسرائیلیوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟ کن اصولوں پر زندگی گزارنی ہے؟۔ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں، ہم ہمسائے ہیں، ہم ان کا حصہ نہیں ہیں۔ انوار کا بچہ نہیں مارا جا رہا، بادامی کا بچہ نہیں مارا جا رہا، جن لوگوں کے بچے شہید ہو رہے ہیں، پہلا حق ان کا ہے، ان سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟۔ حماس کے فلسطینیوں کے نمائندہ ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ بھی فلسطینی کریں گے، میں یا آپ نہیں کریں گے، ہماری طرف اس چیز کو دھکیلنا کہ ہم یہ تجویز دے رہے ہیں، یہ تاثر درست نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ اس کا حوالہ دیتے ہیں، سیاست کوئی کام کرنے کا نام نہیں بلکہ سیاست کچھ حاصل کرنے کا نام ہے، قائداعظم میں اور جو ادیان کے نبی اور رسول گزرے ہیں ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان پر جو الہام آیا ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، لیکن اس سے ہٹ کر جتنے بھی سیاسی رہنما یا سماجی دانشور آئے ہیں، حالات اور واقعات کی روشنی میں، آنے والے وقت میں جو دوسرے لوگ ہوتے ہں، وہ اس پر سوچ بچار کرتے ہیں اور اگر کہیں پر کچھ تعمیری موقف یا کچھ تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لائی جاسکتی ہے اور آسکتی ہے۔ قائداعظم کی پوزیشن کے تبدیل ہونے پر پابندی نہیں ہے۔ اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ بچار کرتے ہیں اور قائداعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے، اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔ جب ان سے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے حالیہ بیان کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ پارلیمان کو کرنا چاہیے۔ انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ کسی ایک صاحب کے کہنے پر اگر پوزیشن لے لیں گے تو ایسا نہ ہو کہ کل کو اس پوزیشن لینے پر پچھتا رہے ہوں، میرے خیال میں مشاورت کا عمل پارلیمان کی صورت میں آنے والا ہے، ان کو یہ عمل کرنے دیں۔ ٹی ٹی پی ناک رگڑ کر بھی تائب ہونے کا اعلان کرے تو معافی کا حق لواحقین کے پاس ہے۔ یہ پلٹ کر آنا چاہتے ہیں، اس طرح نہیں کہ سکندر اعظم کی طرح، فاتحین کی طرح آجائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کل کو یہ ٹی ٹی پی والے ناک رگڑ کے علی الاعلان یہ کہہ بھی دیں کہ ہم تائب ہیں، ہم نے اپنے ساتھ زیادتی کی، معاشرے کے ساتھ زیادتی کی، اس قوم کے ساتھ زیادتی کی تب بھی ان (دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے) لواحقین کو حق ہے کہ وہ سوچیں کہ ان سے بات کرنی چاہیے یا نہیں کرنی؟۔ ان کو معاف کرنا چاہیے یا نہیں؟۔ یہ حق ان کے پاس ہے اور ان کے توسط سے ریاست کے پاس ہے۔ افغانستان کی سرزمین سے حملے ہو رہے ہیں، یہ وہ بھی تسلیم کرتے ہیں، ہمیں بھی پتا ہے اس پر بات کی جا سکتی ہے کہ ان حملوں کو روکنے کے سلسلے میں ان کی صلاحیت کتنی ہے یا ان کے ارادے کیا ہیں؟۔ لیکن یہ لوگ افغانستان میں موجود ہیں، کچھ ہماری طرف بھی ان کے لوگ ہیں۔ لہذا اس پورے پیرائے میں جب تک افغانستان کی صورت حال اور ان کی جانب سے عزم سامنے نہیں آئے گا تب تک یہ بات ختم نہیں ہوگی۔ افغانستان کی جانب سے تعاون سے متعلق سوال پر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہمارے محکمے ان سے رابطے میں ہیں اور ہم اسے کامیابی سے اختتام کو پہنچائیں گے۔ عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوال پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اگر کسی کو اب بھی کنفیوژن ہے تو یہ قومی بدبختی ہے، آپ دہشت گردوں کے ساتھ اس طرح سے مذاکرات نہیں کرتے۔ ہماری بنیادی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہمیں پاکستانیوں کے دلوں کا خیال رکھنا ہے کہ ان کے دل میں کیا ہے؟۔ جن پر آپ آئینی طور پر حکومت کرتے ہیں ان کے دل اور دماغ کو ہم کیسے جیتیں؟۔ ہم افغانوں پر تو حکومت نہیں کرتے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ افغانوں کی واپسی پر کوئی مستقل پابندی نہیں ہے، وہ اپنے وطن جائیں اور سفری دستاویزت بنوا کر جس وجہ سے آنا چاہتے ہیں، اس جواز کی وضاحت کرکے آئیں۔ الیکشن میں کوئی التوا نظر نہیں آرہا۔8 فروری 2024 ء کو عام انتخابات اور سکیورٹی کی صورت حال کے حوالے سے نگران وزیراعظم نے کہا کہ آج کی تاریخ میں انہیں الیکشن میں کوئی التوا نظر نہیں آرہا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے مطابق تو 8 فروری کی صبح 9 سے 5 بجے کے درمیان پولنگ کا وقت ہے اور یہی معاملے کا اختتام ہے۔ جنہوں نے فوجی تنصیبات پر حملہ کیا، ان کا کیس فوجی عدالتوں میں چلنا چاہئے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے دیے گئے گزشتہ روز کے فیصلے کو انوار الحق کاکڑ نے اصول کی جیت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں سپریم کورٹ کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اس نظریے کو سمجھا اور اس پر اپنا اظہار کیا، جو سوشل آرڈر کے لیے بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے 9 مئی کو فوجی تنصیبات پرحملہ کیا، ان کا کیس فوجی عدالتوں میں چلنا چاہیے، ہاں سول اداروں کے سامنے احتجاج کرنے والوں، پلے کارڈز اٹھانے والوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح سپریم کورٹ، پارلیمان کو پتھر مارنے والے کا کیس بھی فوجی عدالت میں نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو 9 مئی کے واقعات کا ماسٹر مائنڈ ٹھہرانا ان کا کام نہیں، ان واقعات کا ذمہ دار کون ہے یہ تحقیقاتی اداروں اور عدلیہ کا کام ہے۔ ایک کاغذ لہرا کر انہوں نے کہا کہ یہ سائفر کا حصہ ہے اور اپنا بیانیہ بنایا، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اپنی حکومت گرانے میں ملوث ذمہ داروں کے تعین کے حوالے سے بیانات سے متعلق سوال پر کہا کہ اگر ہم نے سبق سیکھنا ہے تو 14 اگست 1947 سے شروع کریں کہ کہاں کہاں غلطیاں کیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور ایوان صدر سے اچھے تعلقات ہیں۔ انہوں نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس منصب کے حوالے سے جتنی حکومت کو ضرورت پڑی، وہ حمایت ہمیں ملی ہے، بہت زیادہ رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، صدر پاکستان ملک سے پیار کرنے والے شخص ہیں، ایسا لگتا نہیں کہ صدر ریاست کے معاملات میں بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ دو روزہ دورے پر مظفرآباد پہنچ گئے۔ مظفر آباد آمد پر آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے ہیلی پیڈ پران کا استقبال کیا۔ وزیراعظم یادگار شہداء گئے جہاں انہوں نے جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیراعظم نے یادگار شہداء پر حاضری دی، پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔ جموں وکشمیر کی آزادی کے لئے قربانیاں دینے والے رہنمائوں کی تصاویر دیکھیں۔ بعد ازاں وزیراعظم قانون ساز اسمبلی پہنچے جہاں انہیں آزاد کشمیر پولیس کے چاق و چوبند دستے کی طرف سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ وزیراعظم کا یہ دورہ جموں وکشمیر کی حیثیت کے حوالے سے بھارت کے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدام کی بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے توثیق کے تناظر میں جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے۔