کئی دنوں سے گھنٹوں تنہائی میں بیٹھا سنجیدگی سے سوچنا شروع ہوگیا ہوں کہ مجھے محاورے والا گلاس ہمیشہ خالی ہی کیوں نظر آتا ہے اگرچہ وہ آدھا بھرا بھی ہوتا ہے۔گلاس کو آدھا بھرانہ دیکھنے والوں کو فطرتاََ امید سے محروم تصور کیا جاتا ہے۔اس کلیے کا بھی لیکن مجھ پر اطلاق نہیں ہوتا ۔ عمر بھر طاقت ور لوگوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والی صحافت کی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی مشکل دنوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ برے دنوں کو مگر شیکسپیئر کے بتائے’’یہ بھی گزر‘‘ جائیں گے سوچتے ہوئے ڈھٹائی سے برداشت کرنے کی عادت اپنارکھی ہے۔
کسی اور جانب بھٹکنے سے بہتر ہے کہ توجہ اصل موضوع پر مرکوز رکھی جائے اور وہ ہے میری گلاس کو آدھا بھرا دیکھنے کی عادت۔اس عادت سے مغلوب ہوئے اگست 2021ء کا آغاز ہوتے ہی دہائی مچانا شروع کردی تھی کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء سے قبل وطن عزیز کے وسیع تر اور طویل المدت مفاد میں سوچ بچار کے بعد کوئی حکمت عملی اختیار کرلی جائے۔ اپنی بات سمجھانے کے لئے تواتر سے کئی کالم لکھے۔ ان کے ذریعے افغانستان کے 1980ء کی دہائی سے رواں صدی کے وسط تک جو سفر کئے تھے ان کے دوران ہوئے تجربات کی بنیاد پر خبردار کرنے کی کوشش کی کہ افغانوں کی اکثریت خواہ ان کا تعلق کسی بھی نظریے سے ہو پاکستان سے اندھی محبت میں مبتلا نہیں۔شہری متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت بلکہ شدت سے یہ محسوس کرتی ہے کہ 1947ء میں ’’برطانیہ کی مہربانی سے ‘‘ قائم ہوا پاکستان ان کے ملک کو اپنا مطیع بنانا چاہتا ہے۔سوویت یونین کے خلاف 1980ء کی دہائی میں ہوئے طویل ’’جہاد‘‘ کو وہ ہرگز پاکستان کے کھاتے میں نہیں ڈالتی۔اس کا واحد سبب افغانوں کی اجتماعی حمیت کو ٹھہراتی ہے۔ان میں سے بے تحاشہ متعصب افراد نہایت سنجیدگی سے اس سازشی تھیوری پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان نے افغانوں کی مدد کے نام پر امریکہ اور یورپ کے علاوہ عرب ممالک سے بھی بے پناہ ڈالر اور جدید ترین اسلحہ جمع کیا۔ افغانوں کو اس میں لیکن ’’چونگا‘‘ برابر حصہ بھی نہ دیا۔
ذاتی تجربات کی بدولت اخذ کئے نتائج کی بدولت میں فریاد کرتا رہا کہ اس گماں میں ہرگز مبتلا نہ رہا جائے کہ کابل میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستان اور افغانستان ٹچ بٹنوں کی جوڑی کی طرح ’’اک مک‘‘ ہوجائیں گے۔ خدشہ اس کے برعکس مجھے یہ لاحق تھا کہ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کو ذلت آمیز انداز میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے والے طالبان پاکستان کو اب کسی خاطر میں نہیں لائیں گے۔ ان کے ہم عقیدہ پاکستانی طالبان بلکہ امریکہ کی شکست کے بعد ریاست پاکستان کو بھی اپنی ترجیح کا ’’اسلام‘‘ نافذ کرنے کے لئے دبائو میں لانا شروع ہوجائیں گے۔
دو ٹکے کے رپورٹر کے خدشات کو تاہم ہمارے پالیسی سازوں نے کسی توجہ کے قابل ہی تصور نہ کیا۔ امریکہ ذلیل ورسوا ہوکر افغانستان سے نکل گیا تو سابق وزیراعظم عمران خان نے ’’غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے‘‘ پر فخروانبساط کا اظہار کیا۔ان کے حکم پر قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں نے افغانستان میں پناہ گزین ہوئے پاکستانی طالبان کو ’’گھر واپس‘‘ لاکر بسانے کی کاوشیں بھی شروع کردیں۔ ’’گھر واپسی‘‘ مگر پا کستان میں دہشت گردی کے احیاء کا سبب ہونا شروع ہوگئی۔
دہشت گردی کے واقعات میں شدت ا ور تسلسل نے ریاست پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ افغان طالبان کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائے۔ ان سے بات ہوئی تو وہ کندھے اچکاکر دہشت گردی کو پاکستان کا ’’اندرونی مسئلہ‘‘ قرار دیتے ہوئے ہمیں اپنے ہم عقیدہ بھائیوں سے مذاکرات کے مشورے دینا شروع ہوگئے۔ اپنے تئیں ان کے خلاف کسی کارروائی کو آمادہ نہ ہوئے۔ دریں اثناء پے در پے ہوئی دہشت گردی کی وارداتوں میں ا فغان شہریوں اور وہاں سے آکر پاکستان میںآباد ہوئے افغانوں کی شمولیت کثیر تعداد میں نما یاں ہونے لگی تو پاکستان نے اپنے ہاں غیر قانونی طورپر مقیم افغانوں کو پاکستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ ذاتی طورپر اس فیصلے کی وجوہات اور مبادیات سے میں کاملاََ متفق تھا۔ اس کے اطلاق کی حکمت عملی مگر پریشان کن حد تک ناقص تھی۔اس کی اہم ترین خامی یہ بھی تھی کہ دنیا بھر میں پھیلے افغانوں کو یہ پیغام گیا کہ حکومتِ پاکستان نے ’’تمام‘‘ افغانوں کو یکمشت اپنے ہاں سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حالانکہ فقط ان افغان شہریوں کو ٹارگٹ کرنا مقصود تھا جو کسی بھی دستاویزی ریکارڈ کا حصہ ہوئے بغیر پاکستان درآئے تھے۔
افغانوں کی پاکستان سے بیدخلی کی داستان جس بھونڈے انداز میں پھیلی اس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بھی یہ سوچنے کو اکسایا کہ جیسے ہم ان افغانوں کو اپنے ہاں سے نکالنے پر توجہ دے رہے ہیں جو نام نہاد وار آن ٹیرر کے دوران ان کے ’’اثاثوں‘‘ کی صورت کام کررہے تھے اور طالبان کے کابل میں لوٹنے کے بعد اپنی جان بچانے خاموشی سے پاکستان آگئے۔ امریکہ کے علاوہ نیٹو اتحاد میں شامل ممالک کے یہ افغان ’’اثاثے‘‘ تھے۔انہوں نے پاکستان سے وعدہ کیا تھا کہ ’’اثاثوں‘‘ کو ہمارے ہاں زیادہ دنوں تک رہنے نہیں دیا جائے گا۔انہیں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں طویل قیام کیلئے ویزے وغیرہ کوائف کی چھان بین کے بعد فراہم کردیے جائیں گے۔ فروری 2022ء میں لیکن روس یوکرین پر حملہ آور ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں یوکرینی اب یورپ ہی نہیں بلکہ امریکہ میں بھی پناہ گزین ہوچکے ہیں۔ان کی دیکھ بھال میں الجھے ہونے کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی ’’افغان اثاثوں‘‘ سے کئے وعدے فراموش کرچکے ہیں۔ پاکستان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ و ہ انہیں اپنے ہاں طویل المدت قیام کی اجازت دینے کو رضا مند ہوجائے۔’’اثاثوں‘‘ کی تعداد ابتداََ 25ہزار افراد پر مشتمل بتائی گئی تھی۔ اب مگر اندازہ ہورہا ہے کہ 25ہزار افراد نہیں بلکہ ’’کنبوں‘‘ کی بات ہورہی ہے جن کے ذاتی ملازموں یعنی ڈرائیوروں اور خانساموں کو بھی شمار کیا جائے تو ان کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرجاتی ہے۔
پاکستان گویا دو طرفہ دبائو میں ہے۔ افغان طالبان اپنے ہم عقیدہ انتہا پسندوں کی سرپرستی سے باز نہیں آرہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنے ’’اثاثوں‘‘ کا غم کھائے جارہا ہے۔ دریں اثناء دہشت گردی کی وارداتیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں اور اس ہفتے کے آغاز میں ڈیرہ اسماعیل خان کو ژوب اور میانوالی سے ملانے والی اہم ترین شاہراہ پر واقع ایک فوجی چوکی کو خود کش بمبار اور بارود سے لدھی وین کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ڈیرہ ا سماعیل خان میں ہوئے دلخراش واقعہ کے بعد مگر اب طالبان کے ہم عقیدہ پاکستانیوں سے مذاکرات کی گنجائش ہرگز باقی نہیں رہی۔ ریاست پاکستان کو اب لازماََ چند جارحانہ اقدامات لیتے ہوئے دہشت گردوں اور ان کے افغانستان میں بیٹھے سرپرستوں کو تنبیہی پیغام دینا ہوگا۔