سردیوں کے ٹھٹرتے دن کہرے میں لپٹی زندگی اور منیر نیازی کی زندگی اور احساسات کو چونکا دینے والی شاعری ایک نئے عزم کے لئے کافی ہے وہ دسمبر میں ہم سے بچھڑ گئے لیکن زندگی کی اس اونچ نیچ سے شاعری کے زریعہ آگاہ کرگئے جس کا ادراک اگ زندگی کے لمس کو چھو لے تو زندگی کے حقائق کو روز روشن کی طرح عیاں کردیتی ہے لیکن منیر نیازی نے زندگی کے سفر کو محبوب کی یاد سے ملاجلا دیا ہے اور بعض اوقات تو یہ ابہام پیدا ہو جاتا ہے کہ ان کو زندگی کی تلاش ہے یا زندگی میں کسی ہمسفر کی جو انکی زندگی کو زندگی بنادے وہ زندگی کی رمق کبھی تنہا پھول لکھ کر اس میں تلاش کرتے ہیں کبھی ریل کی سیٹی ہجر کا سندیسہ لے کر آتی ہے کبھی خالی ممٹیوں پر اکا دکا پرندے کی آہ وبقا زندگی کے اندر اداسی بھرتی نظر آتی ہے ایک مقام پر وہ کہتے ہیں کہ
آواز دے کہ دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفررائیگاں تو ہے
منیر نیازی قاری کا ہاتھ تھامے اداسی کی اس بستی کی طرف لے جاتے ہیں جہاں گھٹا ٹوپ اندھیرا نہیں ہے بلکہ امید آس آگہی شعور روشنی جستجو اور تمنا کے سات دروازے کھلتے ہیں اور یہی سات دروازے بقول ان کے انسان کی ذات کے اندر کھلتے ہیں یہاں ان کے خیالات ڈاکٹر سہیل احمد سے ہم آھنگ ہو جاتے ہیں ڈاکٹر سہیل احمد نے داستانوں کی علامتی کائنا لکھ کر واصح کیا کہ در اصل اندر کی روشنی انسان کو متحرک رکھتی ہے وگرنہ ہر طرف اندھیرا ہے کافکا نے اپنی کہانی اس شخص کی روداد کو پیش کیا ہے جو اس روشنی کے فقدان سے کیڑا بن کر زندگی گزارنے لگا منیرنیازی نے اندر کی روشنی کا سرا محبت سے باندھ دیا:
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اسکو بسر اس نے کیا
ایک اور جگہ کہتے ہیں :
تیرا ہونا ضروری تھا
نہ ہونا بھی ضروری تھا
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
اس سمت مجھکو یار نے جانے نہیں دیا
اک اور شہریار میں آنے نہیں دیا
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لئے
تو نے وہ وقت ہمکو زمانے نہیں دیا
منیر نیازی کے ہاں انسانی نفسیات اور انسانی شکست وریخت کی کہانیاں پوری توانائی کا ساتھ ہیں:
تیرا خیال بہت دیر تک نہیں رھتا
کوئی ملال بہت دیر تک نہیں رھتا
میں جانتا ہوں کہ سورج ہو ں ڈوب ا بھی تو
مجھے زوال بہت دیر تک نہیں رھتا
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہوگیا لیکن کبھی رویا نہیں
منیر نیازی انسانی معاشرت سیاست طرز فکر معاشرتی رویوں کے زوال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اس موضوع پراکثر شاعروں اور افسانہ نگاروں نے قلم اٹھایا در حقیقت عوام کی کسمپرسی ترقی کاسفر نہیں بلکہ سفر معکوس ہے تعمیری سوچ مثبت رویوں سے بنتی ہے منفی رویے انارکی کی طرف دھکیل دیتے ہیں منیر نیازی نے اس موضوع پر بھی قلم اٹھایا ہے:
اس شہرسنگدل کو جلادینا چاہیے
پھر اسکی خاک کو بھی اڑادیناچاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشراس زمین پر اٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے جہاں رسم قاہری
اس دہر کو اب اسکی سزا دینا چاہیے
منزل سے دوری اور کاروان سے بچھڑنے کا احساس اس وقت بڑھ جاتا ہے جب ہم سفری میں یک جہتی ہو ہم اھنگی نہ ہو اور ہم مزاجی نہ ہو اور یہ سارے محرکات انسانیت محبت اور دکھ سکھ میں سانجھ سے آتے ہیں اسی لئے ہم عرصہ دراز سے جس راستے پر چل رہے ہیں وہاں منزل کاشائبہ تک نہیں ہے انتظار حسین لکھتے ہیں کھونے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کھونے سے پہلے منزل کو کھونے کا ادراک ہو لیکن یہ ادراک ہمیں کبھی نہیں رہا اس لئے راستہ بھی بااعتبار نہیں رھتا۔ بقول منیر نیازی:
ہیں رواں اس راہ پر جسکی کوئی منزل نہیں
جستجو کرے ہیں اسکی جو ہمیں حاصل نہیں
چاھتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو