اس شہر سنگدل کو جلادینا چاہیے

Dec 15, 2023

فہمیدہ کوثر

سردیوں کے ٹھٹرتے دن  کہرے میں لپٹی زندگی اور منیر نیازی کی زندگی اور احساسات کو چونکا دینے والی شاعری ایک نئے عزم کے لئے کافی ہے وہ دسمبر میں ہم سے بچھڑ گئے لیکن زندگی کی اس اونچ نیچ سے شاعری کے زریعہ آگاہ  کرگئے جس کا ادراک اگ زندگی کے لمس کو چھو لے تو  زندگی کے حقائق کو روز  روشن کی طرح عیاں کردیتی  ہے لیکن منیر  نیازی نے زندگی کے سفر کو محبوب کی یاد سے ملاجلا دیا ہے اور بعض اوقات تو یہ ابہام پیدا ہو جاتا ہے کہ ان کو زندگی کی تلاش ہے یا زندگی میں کسی ہمسفر کی جو انکی زندگی کو زندگی بنادے وہ زندگی کی رمق کبھی تنہا پھول لکھ کر اس میں تلاش کرتے ہیں  کبھی ریل کی سیٹی  ہجر کا سندیسہ لے کر آتی ہے کبھی خالی ممٹیوں پر اکا دکا پرندے کی آہ وبقا زندگی کے اندر اداسی بھرتی نظر آتی ہے ایک مقام پر وہ کہتے ہیں کہ 
آواز دے کہ دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ  عمر بھر کا سفررائیگاں تو ہے
منیر نیازی قاری کا ہاتھ تھامے اداسی کی اس بستی کی طرف لے جاتے ہیں جہاں گھٹا ٹوپ اندھیرا نہیں ہے بلکہ امید آس آگہی شعور روشنی  جستجو  اور تمنا کے سات دروازے کھلتے ہیں اور یہی سات دروازے بقول ان کے انسان کی ذات کے اندر کھلتے ہیں یہاں ان کے خیالات ڈاکٹر سہیل احمد سے ہم آھنگ ہو جاتے ہیں ڈاکٹر سہیل احمد نے داستانوں کی علامتی کائنا لکھ کر واصح کیا کہ در اصل اندر کی روشنی انسان کو متحرک رکھتی ہے وگرنہ ہر  طرف اندھیرا ہے کافکا نے اپنی کہانی اس شخص کی روداد کو پیش کیا ہے  جو اس روشنی کے فقدان سے کیڑا بن کر زندگی گزارنے لگا منیرنیازی نے اندر کی روشنی کا سرا محبت سے باندھ دیا:
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا 
عمر میری تھی مگر اسکو بسر اس نے کیا
ایک اور جگہ کہتے ہیں :
تیرا ہونا ضروری تھا
نہ ہونا بھی ضروری تھا
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
اس سمت مجھکو یار نے جانے نہیں دیا
اک اور شہریار میں آنے نہیں دیا
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لئے
تو نے وہ وقت ہمکو زمانے  نہیں دیا
منیر نیازی کے ہاں انسانی نفسیات اور انسانی شکست وریخت کی کہانیاں پوری توانائی کا ساتھ ہیں:
تیرا خیال بہت دیر تک نہیں رھتا 
کوئی ملال بہت دیر تک نہیں رھتا
 میں جانتا ہوں کہ سورج ہو ں ڈوب ا بھی تو
مجھے زوال بہت دیر تک نہیں رھتا
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہوگیا  لیکن کبھی رویا نہیں
منیر نیازی انسانی معاشرت سیاست طرز فکر معاشرتی رویوں کے زوال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اس موضوع پراکثر شاعروں اور افسانہ نگاروں نے قلم اٹھایا  در حقیقت عوام کی کسمپرسی ترقی کاسفر نہیں بلکہ سفر معکوس ہے  تعمیری سوچ مثبت رویوں سے بنتی ہے منفی رویے انارکی  کی طرف دھکیل دیتے ہیں منیر نیازی نے اس موضوع پر بھی قلم اٹھایا ہے:
اس شہرسنگدل کو جلادینا چاہیے
پھر اسکی خاک کو بھی اڑادیناچاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشراس زمین پر اٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے جہاں رسم قاہری
اس دہر کو اب اسکی سزا دینا چاہیے
منزل سے دوری اور کاروان سے بچھڑنے کا احساس اس وقت بڑھ جاتا ہے جب ہم سفری میں یک جہتی ہو  ہم اھنگی نہ ہو اور ہم مزاجی نہ ہو  اور یہ سارے محرکات انسانیت محبت اور دکھ سکھ میں سانجھ سے آتے ہیں اسی لئے ہم عرصہ دراز سے جس راستے پر چل رہے ہیں وہاں منزل کاشائبہ تک نہیں ہے انتظار حسین لکھتے ہیں کھونے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب  کھونے سے پہلے  منزل کو کھونے کا ادراک ہو لیکن یہ ادراک ہمیں کبھی نہیں رہا اس لئے راستہ بھی بااعتبار نہیں  رھتا۔ بقول منیر نیازی:
ہیں رواں اس راہ پر جسکی کوئی منزل نہیں
جستجو کرے ہیں اسکی جو ہمیں حاصل نہیں
چاھتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر 
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو

مزیدخبریں