شاعر مشرق ، حکیم الامت ، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے کہا تھا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
وہ افراد جن کو علامہ محمد اقبال نے ملت کا ستارہ قراردیا تھا ان میں سے ایک علامہ ابتسام الٰہی ظہر ہیں۔ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر جواں سال ، جواں عزم اور جواں ہمت ہیں۔ وہ شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر کے فرزند ہیں اس اعتبار سے وہ قائد ابن قائد ہیں۔ اپنے والد گرامی کی طرح علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کے لہجہ میں بھی وہی گھن گرج ، کلمہ حق کہنے کی وہی لگن ، اسلام کی سربلندی کی وہی تڑپ ، باطل کو للکارنے اور طوفانوں سے ٹکرا جانے کی وہی شدت وحدت اور امت کو بیدار کرنے کی وہی فکر موجزن ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کلمہ حق کی سربلندی کیلئے وقف کررکھی ہے۔ وہ اس وقت پاکستان کی سیاست کی ایک مؤثر اور توانا آواز ہیں۔ تمام مذہبوں جماعتوں کے سٹیج کی رونق ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، بات کرنے کا طریقہ اور سلیقہ رکھتے ہیں۔ وہ
نرم دم ِ گفتگو ، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل وپاکباز
کی عملی تصویر ہیں۔ علامہ ابتسام الٰہی ظہیراعلیٰ پائے کے خطیب ، ادیب ، مدبر ، سیاستدان اور قرآن وسنہ موومنٹ کے چیئرمین ہیں۔ قرآن وسنہ موومنٹ کا قیام اگر چہ کچھ ہی عرصہ قبل عمل میں لایا گیا تھا لیکن علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کی متحرک اور فعال شخصیت کے بدولت یہ اس وقت ایک ملک گیر جماعت بن چکی ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں قرآن وسنہ موومنٹ نے کامیاب اور شاندار جلسے کرکے خود کو منوالیا ہے۔ ایسا ہی ایک جلسہ گذشتہ دنوں پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ میں بعنوان’’ نفاذ اسلام واستحکام پاکستان‘‘ منعقد کیا گیا۔ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر خود بھی نوجوان ہیں ستاروں پہ کمند ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ نوجوان ان کے گرویدہ اور ہراول دستہ ہیں۔ قرآن وسنہ کے ملک میں جہاں بھی پروگرام ہوں اس میں نوجوان پیش پیش ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گوجرانوالہ کے جلسہ کو کامیاب کروانے اور اس کے انتظامات میں نوجوان پیش پیش تھے۔ گوجرانوالہ کا منی سٹیڈیم تنگ داماں کا شکوہ کررہا تھا جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی، جن کے جذبات آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔جلسہ سے کلیدی خطاب علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کا تھا جو کہ بہت فکر انگیز اور ملک کو درپیش تمام مسائل کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔ انھوں نے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں کہا پاکستان کے حصول کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔قیام پاکستان کے لیے نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین نے تاریخ ساز قربانیاں دیں، اپنے گھروں کو، آبائی مکانات کو خیر باد کہا اور پاکستان آکر آباد ہوئے۔ان قربانیوں کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایک ایسی ریاست حاصل کی جائے جس میں اسلامی قوانین کے علمبرداری ہواور اسلام کا پرچم سربلند ہو ، جس کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اسلام کا بول بالا ہو۔یہ خواب تھے جو پاکستان بنانے والوں نے دیکھے تھے لیکن بدقسمتی اور بد نصیبی کی بات ہے کہ بانیان پاکستان کے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں ہر طرف فواحش ومنکرات کا دور درہ ہے ، شراب، جوئے، قمار بازی اور بدکاری کے اڈے کھلے ہوئے ہیں، بینکوں میں سودی لین دین کے کاونٹرزجاری و ساری ہیں۔ ان منکرات کے خاتمے کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے لیکن حکومت ان کے خاتمہ کی بجائے ٹرانس جینڈر بل اور اس قسم کی دیگر خرافات کو پھیلانے میںمصروف ہے۔گذشتہ کچھ سال سے ملک میں’عورت مارچ‘ کا انعقاد بھی شروع ہوچکا ہے جس سے ملک کے اسلامی ، تہذیبی، نظریاتی اور فکری ڈھانچے کو شدید قسم کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔’عورت مارچ‘ جیسی خرافات کا نتیجہ ہے کہ ملک میں مختلف مقامات پر جنسی جرائم کے واقعات تشویشناک اور خوفناک حد تک بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ ایک عرصہ پہلے قومی اسمبلی میں بچوں کے ساتھ برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سزائے موت تجویز کی گی تھی لیکن تاحال اس پہ عمل نہیں ہو سکایہ اس لئے کہ حکومتوں کی ترجیحات میں برائی ، بے حیائی اور جنسی جرائم کا خاتمہ نہیں ہے۔علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے مزید کہا کہ ملکی معیشت بھی ایک عرصے سے دھچکوں اور تنزلی کا شکار ہے۔جس کا نتیجہ ہے کہ غریب اور سفید پوش طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس گیا ہے۔ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان سے سودی نظام ختم کرنا ہو گا۔ اسی طرح ملک میں برآمدات اورصنعت کاری کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تجارتی اعتبار سے تاجروں کو ریلیف دے ،ملک میں کاروبار کے ذرائع اور مواقع بڑھائے جائیں تا کہ ملک میں مقیم لوگ بیرون ملک جانے کی بجائے پاکستان ہی میں اچھا روزگار تلاش کریں۔ ٹیکسوں کی شرح کم کی جائے تاکہ پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہو۔پاکستان کے دفاعی اثاثوں کا تحفظ کرنا جہاںعسکری اداروں کی ذمہ داری ہے وہیں دفاعی اثاثوں کی حفاظت کے لیے عوام کو بھی ہوشیار ،چوکنا اور بیدار رہنے کی بھی ضرورت ہے۔پاکستان کو بین الاقوامی تنازعات کے اندر بھی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ جہاں جہاں مسلمان مظلوم ہیں ان کی حمایت کیلئے بھرپور طریقے سے آواز اٹھانی چاہیے۔ پاکستان کو بین الاقوامی برادری کے ساتھ مساوی بنیادوں پر تعلقات رکھنے چاہئیں اور اپنی معیشت کو فروغ دینے لیے قرضوں کی بجائے خود داری کے راستوں پر چلنا چاہیے۔ پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لیے اسلام اور آئین کی سربلندی انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان کا آئین کتاب و سنت کی عملداری، پابندی اور سرفرازی کی ضمانت دیتا ہے لیکن بد نصیبی سے عرصہ دراز سے اس بات پر صحیح طریقے سے عمل نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے ملک میںنظریاتی اعتبار سے کشمکش کی کیفیت نظر آتی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی اسلامی قوانین کی افادیت کو اہمیت نہیں دی۔ان حالات میں ملک کی تمام دینی جماعتوں کو ایک پیج پر آکر اللہ تبارک وتعالیٰ کی دین کی سربلندی کے لیے یکسوئی سے اپنا کردار ادا کرناہوگا۔سامعین سے خطاب کرتے ہوئے صاحبزادہ قیم الٰہی ظہیر ڈپٹی سیکرٹری جنرل قرآن وسنہ موومنٹ نے کہا کہ پاکستان کے نظریاتی استحکام ہی سے ملک ایمان و استحکام کے راستے پہ چلے گا۔نوجوانوں کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا اگر نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں گے تو اس صورت میں ہی پاکستان مستحکم ریاست کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا اسرائیل وفلسطین تنازعے کے حل کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کرنی چاہیے۔
جلسہ عام سے پروفیسر سیف الرحمن بٹ نائب صدر ، الشیخ عبدالرزاق اظہر چیئرمین قرآن وسنہ موومنٹ گوجرانولہ ، محمد نوریز ملک ناظم تعلقات عامہ قرآن وسنہ موومنٹ ، ڈاکٹر صلاح الدین چیئرمین قرآن وسنہ موومنٹ لاہور اور دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔جلسہ میں درج ذیل قراردادیں بھی منظور کی گئیں کہ ناموس صحابہ بل پاس کیا جائے اور اس حوالے سے تمام دینی طبقات یکسو اور متحد رہیں۔ انتخابات کو ملتوی یا مؤخر کرنے کی بجائے ان کا بروقت انعقاد وقت کی ضرورت ہے۔ انتخابی دھاندلیوں کو روکنے کے لیے مضبوط اور ٹھوس منصوبہ بندی اختیار کی جائے۔ملک میں تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں۔ایک قرارداد کے ذریعے اسرائیلی مظالم کی بھرپور انداز سے مذمت کی گئی آخر میں فلسطینی بھائیوں کے لیے اظہار ِ یکجہتی کیا گیا اور نہایت ہی پر سوز طریقے سے فلسطین کے لیے دعا بھی کی گئی۔