نام : یاسر محمود وڑائچ
ای میل : yasir825@gmail.com
تقسیم ہند ایک تکلیف دہ مرحلہ تھا ، ہٹ دھرمی ،سازشوں پر مبنی غلط فیصلے ،جن کے نتائج فسادات ،نفرتوں میں اضافے ،ہجرت ،قتل و غارت کی صورت نکلے ، ان میں ایک فیصلہ پنجاب کی تقسیم تھا۔ ایک جسم کو دو حصوں میں بانٹنے کے مترادف ،یہ بٹوارہ تکلیف دہ اور دور رس اثرات کا حامل تھا ، لاکھوں جانوں کے ضیاع کاجو باعث بنا، مسئلہ کشمیر کی بنیاد میں بھی اس کی نحوست شامل ہوئی۔ پانچ دریائوں پرمشتمل پنجاب اس وقت تقریباََ 3کروڑ50لاکھ آبادی پر مشتمل تھا،سکھ اور ہندومل کر جس کا 45فیصد بنتے تھے، جبکہ مسلمان 53فیصد کیساتھ اکثریت میں تھے ، اصولی طور پر پورا صوبہ پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ایسے میں بھارت کیلئے کشمیر پر قابض ہونا ناممکن ہو جاتا۔کانگریس چونکہ تقسیم ہند کے حوالے سے مین سٹیک ہولڈر تھی اور ہندوئوں کی بڑی تعدادحکومتی مشینری کا حصہ،اسی لئے اہم معلومات کانگریسی لیڈروں تک فیصلے ہونے سے قبل پہنچتی رہیں۔ سرحدوں کے تعین کیلئے بائونڈری کمیشن کے کام کے دوران جن کا کردار اس وقت کھل کر سامنے آیا جب کمیشن نے تزویراتی نقطہ نظر سے پاکستان کیلئے انتہائی اہم گورداسپور ،فیروزپورسمیت ملحقہ علاقے جائز طور پر پاکستان میں شامل کئے تو خبر پا کر نہرو نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ، ریڈکلف ایوارڈ تبدیل کروا کر مذکورہ علاقے بھارت میں شامل کروا لئے۔جس سے آگے چل کر کشمیر اور نہری پانی جیسے کئی مسائل نوزائیدہ ریاست کیلئے پیدا ہوئے۔
قائداعظم پنجاب کی تقسیم کے مخالف تھے ،لارڈ موئونٹ بیٹن نے جس کی تصدیق 6اکتوبر1948کورائل ایمپائر سوسائٹی میں کی جانیوالی اپنی تقریر میں کچھ اسطرح سے کی۔’’میں نے مسٹر جناح کو بتایا کہ کانگریسی لیڈرز تقسیم پر راضی ہوگئے ہیں ،جس پر وہ بہت خوش ہوئے ،جب میں نے کہا کہ منطقی طور پر اس کے بعد پنجاب اور بنگال کی تقسیم ہوگی تو وہ پریشان ہوگئے ،انہوں نے صوبوںکو تقسیم نہ کرنے کے بارے میں مضبوط ترین دلائل دیئے،انہوں نے کہا کہ ان میں قوم پرستانہ خصوصیات ہیں اور ان کو تقسیم کرنا تباہ کن ہوگا،میں نے اتفاق کیا تاہم یہ کہا کہ
2/3
اب میں ضروری محسوس کرتاہوں کہ یہی بات انڈیا کی تقسیم پر لاگو کروں۔قائداعظم نے اس بات کو پسند نہ کیا اور وضاحت کرنا شروع کی کہ کیوں انڈیا کی تقسیم ضروری ہے۔ہم بار بار اس نقطے پر با ت کرتے رہے حتی کہ ان کو محسوس ہوگیا کہ یا تو وہ متحد انڈیا میں متحد صوبے لے سکتے ہیں یا پھر انڈیا کی تقسیم کیساتھ پنجاب اور بنگال بھی تقسیم ہونگے اور انہوں نے دوسرا آپشن لیا۔‘‘
20فروری 1947کو برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلے کا یہ اعلان کہ جون 1948تک انڈیا کو آزاد اور اختیارات مقامی ذمہ دار ہاتھوں کو منتقل کر دیئے جائیں گے،کاایک نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب میں برطانوی راج سے وفاداری کی ایک لمبی تاریخ رکھنے والی یونینسٹ پارٹی کی گرفت کمزور ہوگئی،وزیر اعلیٰ حضرحیات ٹوانہ کیخلاف مہم جب شدت پکڑی تو 2مارچ کو انہوں نے استعفیٰ دیدیا،حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے تھے ،پنجاب کے60لاکھ سکھوں او ر ہندوئوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کردی کہ اس سے وہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ جائیں گے،ہندو سے سکھ مذہب اختیار کرنے والے ان کے لیڈر 72سالہ ماسٹر تارا سنگھ نے11مارچ کو اینٹی پاکستان ڈے منانے کا اعلان کردیا اور سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کیلئے سکھ مذہب کے آخری گرو گوبند سنگھ کے نعرے ’’راج کرے گا خالصہ،،،آکی رہے نہ کوئی ‘‘ کا استعمال بھی ،اشتعال انگیز تقاریر نے نفرتوں کومزید ابھارا،3جون کے منصوبے کو بلدیو سنگھ نے تسلیم کیا تو انتہا پسند سکھ لیڈروں نے اس کی مخالفت کر دی اور جولائی میں بائونڈری کمیشن کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں تجویز کیا کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کیلئے دریائے چناب کو بنیاد بنایا جائے تاکہ 90فیصد سکھ انڈیا میں آجائیں جو کہ مسترد کر دی گئی۔سکھوں میں اضطراب پیدا ہوا ،مشتعل سکھ لیڈروںنے گوروداوروں ،مندروں میں مسلمانوں پر حملوں کیلئے منصوبہ بندی کرناشروع کر دی۔ سابق فوجیوں کو بھرتی کیا اور انہیں اسلحہ فراہم کردیا۔9اگست کی رات کو سکھوں کیاایک مسلح گروہ نے اس وقت کی ریاست پٹیالیہ کی سرحد کے قریب دہلی سے لاہور آنیوالی پاکستان سپیشل نمبر 1ٹرین کو روک لیا ،اس ٹرین میں سینئر سول سرونٹس اور انکے خاندان تھے جنہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا تھا،متعدد مارے گئے۔گورنر جینکنز نے12اگست کو وائسرائے کو لکھا کہ پنجاب میں ایک دن میں 4سوافراد فسادات میںمارے گئے ،امرتسر جل رہا ہے ،حالات خراب ہورہے ہیں۔ان فسادات میں مشتعل گروہوں نے دیہاتوں ،ریلوے سٹیشنوں،ٹرینوں، ہجرت کرنے والوں پر مشتمل لمبے قافلوں اور مہاجر کیمپوں کو نشانہ بنایا جس میں قتل عام ،عورتوں کی عصمت دری کی گئی ،جلائو گھیرائو ،ٹرینوں کو روک کر مسافروں کو ذبح کیا گیا۔لوگوں کو کنوئوں میں پھینکا گیا۔15 اگست کو لاہور جانے کیلئے پاکستان سپیشل ٹرین کو امرتسر کے قریب سکھ انتہاپسندوں نے روک لیا ،جس کی خبر پاکستانی علاقوں میں پہنچنے پر آنیوالے دنوں میں بھارت جانیوالی3 ٹرینوں کو وزیر آبادکے قریب روکا گیا اور دونوں طرف مسافروں کا قتل عام کیا گیا،یہ فسادات اکتوبر کے آخری حصے میں ختم ہوئے ،جس میںمحتا ط اندازے کے مطابق 5سے 6لاکھ کے قریب لوگ دونوں اطراف سے مارے گئے،زیادہ تعداد جن میں مسلمانوں اور سکھوں کی تھی۔
3
سکھ لیڈروں کو اپنی غلطی اورہندو بنیے کی سمجھ اسوقت آئی جب وقت گزر اور جانی ومالی نقصان ہوچکا تھا ،قائد اعظم کی بصیرت کے تب سے وہ معترف ہیں،7دہائیوں سے زائد وقت گزر گیا، آج بھی انکی شادیاں ہندو میرج ایکٹ کے تحت ہی ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں ان کیلئے الگ سے قانون ہے،سکھ یاتری جب یہاں آتے ہیں توپاکستانیوں کے برتائو سے ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں ،کرتار پور راہداری ان کی سہولت کیلئے حال ہی میںبنائی گئی ہے ، دونوں پنجاب ایک دوسرے کے قریب آنے کیلئے تڑپ رہے ہیں۔