لاہور (نوائے وقت رپورٹ) 7 اکتوبر سے اب تک غزہ پر ہونے والی اسرائیل کی وحشت ناک بمباری نے کئی فلسطینی ماؤں کے گھر اجاڑ دیے جن میں سے ایک سوہا نصیر بھی ہیں۔ برطانوی اخبار میٹرو نے اپنی ایک رپورٹ میں سوہا کا خط شائع کیا جو کہ انہوں نے غزہ کے ہسپتال کے ایک بیڈ پر لیٹے ہوئے تحریر کیا۔ سوہا نے خط میں اپنی کہانی تحریر کی کہ کس طرح اسرائیلی وحشیوں نے نہ صرف ان کی منت مرادوں سے حاصل کیا گیا پانچ ماہ کا بیٹا چھین لیا بلکہ شوہر بھی جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ سوہا نصیر کی اپنے شوہر محمد سے یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی تھی۔ محمد انتہائی مہربان اور محبت کرنے والے شخص تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے سے 2019 میں پسند کی شادی کی۔ شادی کے بعد سوہا کے حاملہ ہونے میں کچھ مشکلات پیش آئیں لیکن چار سال بعد اللہ نے انہیں بیٹے کی نعمت سے نوازا جس کا نام جوڑے نے احمد رکھا۔ سوہا نے اپنی تحریر میں کہا کہ 'میں یہ غزہ کے ایک ہسپتال کے بیڈ سے لکھ رہی ہوں، میرے شوہر اور بیٹے کو اسرائیلی فضائی حملے میں مرے ہوئے تقریباً دو ماہ ہو چکے ہیں اور میں بھی تقریباً مرچکی ہوں'۔ انہوں نے بتایا 'میں روز احمد کی تصویریں لیتی اور اسے بڑا ہوتا دیکھ رہی تھی، میں نے سب تصور کیا ہوا تھا کہ کیسے احمد سکول جاتا ہے اور پھر کالج جائے گا، میں نے ذہن میں سوچ رکھا تھا کہ احمد ڈاکٹر، انجینئر میں سے کچھ بنے گا، میں نے اسے اپنی سوچوں میں کسی کا شوہر اور باپ بنتے دیکھا تھا، میں نے اپنے خوبصورت بیٹے کا مستقبل تصور کررکھا تھا'۔ سوہا نصیر نے لکھا 'پھر 7 اکتوبر کو جنگ چھڑ گئی اور ہماری زندگی ہی الٹ پلٹ گئی، جس کے بعد میں اپنے خاندان سمیت بہن بھائیوں کی فیملی کے لیے فکرمند ہوگئی'۔ ایک اسرائیلی حملے میں سوہا کے گھر میں پناہ لینے والے 31 افراد میں سے چھ کے علاوہ باقی سب جاںبحق ہو گئے تھے جس میں ان کا ننھا بچہ اور شوہر محمد بھی شامل تھے۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا، احمد کچھ منٹوں پہلے میرے ساتھ ہی موجود تھا، جب میں نے اس حملے سے قبل احمد کو سلایا تو میں نہیں جانتی تھی کہ یہ آخری بوسہ ہے جو میں اسے دے رہی ہوں'۔ ظالم اسرائیل نے مجھے میرے بچے سے محروم کر دیا۔ سوہا نے مزید لکھا کہ غزہ کے تمام لوگوں خصوصاً خواتین کے ساتھ مل کر میں اس قتل عام کے خاتمے کی خواہشمند ہوں، ہمیں اپنے زخموں کو مندمل کرنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے۔