اللہ دتہ نجمی
یکم ستمبر 1939ءکو اتحادیوں اور نازیوں کے درمیان شروع ہونے والی دوسری جنگ عظیم جاپان کے دو بڑے شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹمی حملے کے نتیجے میں اور بعد ازاں نازیوں کی طرف سے ہتھیار ڈالے جانے کے بعد بظاہر دو ستمبر 1945ءکو ختم ہو گئی تھی مگر اِسکے مضر اثرات نے دنیا کو اب تک اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اہم اتحادی ملک ہونے کے باوجود جنگ ختم ہوتے ہی سوویت یونین اور امریکہ و برطانیہ کی سرد جنگ کا آغاز شروع ہو گیا تھا۔ ایک ہی نسل، زبان اور ثقافت رکھنے والے شمالی اور جنوبی کوریا آپس میں 1950ءسے 1953ءتک حالتِ جنگ میں رہے۔ اِس جنگ میں سوویت یونین شمالی کوریا کی جبکہ امریکہ جنوبی کوریا کی کھل کر حمایت کرتا رہا۔ کئی مواقع پر ان دونوں بڑی طاقتوں کے براہ راست تصادم کے امکانی خطرات بھی جنم لیتے لیتے رہ گئے۔ شدید عوامی امنگوں کے باوجود دونوں ممالک دوبارہ ایک لڑی میں دوبارہ نہ پروئے جا سکے۔ احساسِ شکست نے خود کو دنیا کی بہترین نسلیں خیال کرنے والے جرمن اور جاپانیوں کو عملاً بےبسی کی بھیانک تصویر بنا کر رکھ دیا تھا۔ امریکہ نے جاپان کو محدود آزادی سے نوازا کر اس کے دفاعی امور بدستور اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ کوریا کی طرح جرمنی بھی دو حصوں میں منقسم ہو کر سوویت یونین اور امریکی سرپرستی میں آ گیا تاہم مغربی جرمنی سوویت یونین کے کمزور ہونے پر مشرقی جرمنی سے اتحاد کرکے ایک ملک ہونے کا درجہ دلوانے میں کامیاب ضرور ہوا۔ جنگ کے اختتام پر برطانیہ سمٹ سمٹا کر چند جزیروں پر مشتمل ملک بن کر رہ گیا تھا چنانچہ اس نے دور اندیشی کا روایتی مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کو اپنی جانشینی سونپ دی۔ تمام تر باہمی فکری اور نظریاتی اختلافات سے کنارہ کشی اختیار کرتے اور یاد ماضی کے عذاب کو حافظے سے مٹاتے ہوئے یورپی ممالک کی اکثریت نے امریکہ کو اپنا سرپرست و مربی تسلیم کر لیا۔ سوویت یونین کے افغان قبضے کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے افغان مجاہدین کی دامے، درمے، سخنے مدد کی۔ سوویت یونین کو سیاسی، معاشی اور خارجی طور پر کمزور ہونے کے بعد شکست و ریخت کا سامنا کرنے کے بعد روس میں convert ہو گیا۔ یکے بعد دیگرے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں دوسری جنگ عظیم کے آفٹر شاکس کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ دراصل فتح سمیٹنے کے بعد ایک سٹیٹس مین کی حیثیت اختیار کرنے والے اس دور کے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کی سوچ یہ تھی کہ مستقبل میں مفتوح ممالک اور ان میں بھی مسلم ممالک آپس میں برسرِ پیکار رہیں، دوبارہ طاقت نہ پکڑ سکیں اور کبھی امن اور سکون کی زندگی نہ جی سکیں۔ دنیا میں جنگیں لڑنے، چالیں چلنے اور سازشیں کرنے کا سب سے زیادہ تجربہ برطانیہ کو ہے، سو اس نے دنیا میں امن کی بجائے جنگ و جدل اور بد امنی کو اولین ترجیح دی۔ اِس سے اس کے جنگی ساز و سامان کی برآمدات میں اضافے کے قوی امکانات تھے اور تاریخی دلی کدورتوں کو بھی برقرار رکھ کر اپنی انا کو تسکین بھی دی جا سکتی تھی۔ امریکہ بھی دو بڑی جنگیں لڑنے کے بعد کوریا، ویتنام، کیوبا، ڈومینیکن ریپبلک، گرینیڈا، پانامہ اور یوگوسلاویہ میں بھی اپنی حربی طاقت آزما کر جنگی میدان میں کافی مہارت حاصل کر چکا تھا، چنانچہ وہ اپنا ہنر مشرق وسطیٰ میں بھی آزماتا رہا۔ عراق ایران جنگ کے شعلے بڑھکانے میں اپنا کردار ادا کیا اور عراق کو کویت پر حملہ کرنے کےلئے اکسایا۔ امریکی پشت پناہی پر اسرائیل نے اردن، شام، فلسطین، لبنان اور مصر کے ساتھ جنگیں لڑیں اور عراق اور ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کئے گئے۔ اس نے اِس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عراق، لیبیا اور افغانستان پر نیٹو کو ساتھ لے کر خود بھی چڑھ دوڑا اور ان ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔
دوسری طرف اگر برطانوی کالونیوں کا ’درجہ‘ رکھنے والے ممالک بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، برما اور سری لنکا کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یہ ممالک بھی کبھی سکون کا سانس نہ لے سکے۔ سری لنکا ایک عرصے تک تامل باغیوں سے لڑتا رہا اور اب ڈیفالٹ بھی ہو چکا ہے۔ برما میں قتل و غارت اور ظلم و بربریت کا بازار گرم رہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو ہمیشہ کیلئے کشمیر جیسے لاینحل مسلے میں الجھا دیا گیا ہے۔
اِس وقت دنیا میں تین بڑے ایشوز چل رہے ہیں۔ سرِفہرست اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کا لہو لہو ہونا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کھل کر اسرائیل کی نہ صرف حمایت کر رہے ہیں بلکہ اس بربریت کو طول دینے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ روس اور یوکرائن جنگ کا ہے۔ اِس جنگ میں روس کو کوئی بڑی کامیابی اِس لئے نہیں مل سکی کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے بین الاقوامی جنگجو اور دوسرے نیٹو ممالک یوکرائن کی پشت پر ہیں۔ یہ جنگ جتنا طول کھینچے گی، روس کی پوزیشن کمزور ہوتی جائے گی۔ تیسرا بڑا معاملہ شام کا ہے۔ ایک وقت تھا کہ روس کے امریکہ کو آنکھیں دکھانے کے بعد امریکہ شام میں مہم جوئی سے باز آ گیا تھا اور بشارت الاسد کے ڈانواں ڈول اقتدار کو بچا لیا گیا تھا۔ اب کی بار روس بشارت الاسد کے لئے سیاسی پناہ دینے کے علاوہ کوئی اور کچھ نہیں کر سکا۔
مذکورہ بالا تینوں ایشوز کی بنا پر دنیا بھر اسلحہ کی خرید و فروخت میں 2022ءکے مقابلے میں 2023ءمیں 4.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹٹیوٹ (SPRI) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق "2023ءمیں ہتھیار بنانے والی دنیا کی ٹاپ 100 کمپنیوں نے 632 ارب ڈالر کا جنگی ساز و سامان فروخت کیا۔ 2023ءمیں دنیا بھر میں فروخت ہونے والا 50 فیصد جنگی سامان صرف امریکی کمپنیوں نے بنایا تھا۔ اِس منفعت بخش صورتحال میں امریکہ کیوں چاہے گا کہ دنیا میں امن قائم ہو؟؟
معاملات یہیں پر رکتے دکھائی نہیں دی رہے۔ امریکہ کے اگلا ہدف ایران ہو سکتا ہے۔ حالات کے قہرسامانیوں کی وجہ سے اگر ایران اور روس چاہتے ہوئے بھی بشارت الاسد کی حکومت نہیں بچا سکے تو کل کلاں روس کیسے ایران کی مدد کےلئے آئےگا؟ اگر ٹرمپ نے سابقہ امریکی حکمت عملی کو کسی ڈرامائی انداز میں تبدیل نہ کیا تو امریکی اسٹیبلشمنٹ روس میں بھی حکومت تبدیل کرنے کے جتن کرےگی۔ اور ہاں!! پاکستان کو بھی آنے والے دنوں میں انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔