سعید آسی۔۔ دنیائے ادب و صحافت کا گراں قدر سرمایہ    

آواز خلق.... فاطمہ ردا غوری        
  یہ کیسے حالات بنے ہیں 
  لفظ بھی ہم سے روٹھ گئے ہیں
  دل تو ایک تھا سہنے والا 
  زخموں کے انبار لگے ہیں
  الٹے سیدھے نقش بنا کر
  جانے کس کو ڈھونڈ رہے ہیں
  آسی جی آہستہ بولو 
  دیواروں کو کان لگے ہیں 
یہ شہرہ آفاق اشعار کہنے والے محترم سعید آسی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بیدار ضمیر ، سچ کی علمبرداری اور قلم کی جس طاقت سے نوا ز رکھا ہے وہ بلاشبہ ودیعت خداوندی ہی ہے جہاں ہر قسم کے سیاسی حالات و واقعات پر ان کی بھرپور اور گہری نظر رہتی ہے وہیں انکی شعرو شاعری کا بھی ایک منفرد رنگ بھی دکھائی دیتا ہے صحافت اور سیاست کے حوالے سے قلم وقرطاس پر انکی گرفت کا ایک زمانہ معترف ہے وہیں دنیائے ادب میں بھی انکا وجود ایک درخشاں ستارے کی مانند چمکتا دکھائی دیتا ہے محترم سعید آسی صاحب کی اب تک ۲۱ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں شہرہ آفاق کالموں کے مجموعوں اور سفر نامے کے ساتھ ساتھ اردو اور پنجابی شاعری کی کتابیں بھی شامل ہیں ان کو پڑھنے اور پڑھ کے محظوظ ہونے والوں کے لئے نوید کہ صورت” کلام سعید“ کی صورت شاعری کا ایک ایسا مجموعہ بھی منظر عام پر آ چکا ہے جسے کلیات کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس مجموعہ میں نہ صرف انکی تمام شاعری کو کھلے آسمان پر پورے چاند کی مانند سجا دیا گیا ہے بلکہ کچھ تازہ کلام کی صورت چھوٹے چھوٹے چمکتے ستاروں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
سعید آسی صاحب ۴۲ اگست ۴۵۹۱ کو محلہ پیر کریاں پاکپتن شریف جیسے تاریخی شہر میں پیدا ہوئے جسے حضرت بابا فرید گنج شکرکا شہر کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ اس شہر کا پرانا نام اجودھن تھا لیکن بابا فرید ? کی آمد کے بعد ایک ایسا واقعہ مبارک واقعہ پیش آیا جسکے بعد یہ شہر پاک پتن کے نام سے پکارا جانے لگا۔۔ محترم آسی صاحب جو کہ اس شہر میں پیدا ہوئے انکی ذات کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ انکی جدوجہد اور کاوشوں کی بدولت بھی بہت سے افراد اور حالات و واقعات کا رخ ” اجودھن “ سے ”پاک پتن “ کی جانب بدلتا رہا ہے۔ ان کے والد چودھری محمد اکرم مرحوم گو کہ محکمہ مال میں پٹواری تھے لیکن انہیں اردو و فارسی سے بے انتہا لگا? تھا اس لگا? کا اثر سعید آسی صاحب کی شخصیت میں صاف دکھائے دیتا ہے اور انکے الفاظ و اشعار میں صاف سنائی بھی دیتا ہے جیسا کہ وہ کیا خوب کہتے ہیں کہ 
  اب تو جینا بھی ہوا دشوار ‘ الٰہی خیر ہو 
  کس قیامت کے ہیں یہ آثار الٰہی خیر ہو 
  مارنا،مرنا، ڈرانا اور ڈرنا بے دریغ 
  نفرتوں کے اس قدر انبار ، الٰہی خیر ہو 
  قوم پر طاری ہوا ہے چھین لینے کا جنون
  اور پاگل پن میں ہے سرکار ، الٰہی خیر ہو !!!
پاک پتن کوئی عام شہر نہیں یہ وہ شہر ہے جہاں سلطان محمود غزنوی نے پہلی اسلامی حکومت قائم کی تھی۔ یہ وہ شہر ہے جس نے ظہور حسین ظہور ،یونس فریدی ، انور صابری ، یاسر رضا آصف ،اظہر کمال خان ،ناظم زرسز ، ثمینہ سید جیسے کئی عظیم نام اپنی آغوش میں پالے جن میں سے ایک محترم اور بلند پایہ نام سعید آسی بھی ہے ان کے حلقہ احباب میں شامل لوگ جانتے ہیں کہ سعید آسی کا شمار ان سادہ لوح ، سچے جذبات و احساسات رکھنے والے اور روایات و اقدار سے جڑے رہنے والے ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو آج بھی” ساہیوالینز “ پکارے جانے پر کھل اٹھتے ہیں مہک اٹھتے ہیں۔
آج کی نشست میں ہم محترم سعید آسی صاحب سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں کہ وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اندھیر نگری میں روشنی کی مانند جگمگاتے ہوئے کارزار صحافت میں قدم رکھ دینا،کالم نگاری کے میدان میں اتر کر قلم کی طاقت سے ناامیدوں میں امید اور موت چاہنے والوں میں زندگی کی رمق جگا دینا ، بعدازاں آگہی اور شعور کی لو کسی صورت مدھم نہ ہونے کے سبب شاعری کے گہرے نیلے سمندر میں بھی غوطہ زن ہو جانا۔۔۔کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ آخر آپ اپنی ہی ایک کتاب کے عنوان کی صورت کس کس لگن میں مبتلا ہیں ؟؟
مولانا مودودی نے کہا تھا کہ بندہ جماعت اسلامی سے نکل سکتاہے جماعت اسلامی اس کے اندر سے نہیں نکل سکتی اسی بات کے مصداق میں ان سطور میں کہنا چاہوں گی کہ سعید آسی جیسے صوفی منش ، صاف دل ، پر خلوص ،اوریجنل اور آگہی کے عذاب میں مبتلا انسان وکالت کی یا کوئی بھی اور ڈگری حاصل کر لیں انکے اندر موجود شاعر پوری قوت کے ساتھ موجود رہتا ہے جسکے ہاتھوں کی جنبش میں اسوقت تک کمی واقع نہیں ہو پاتی جب تک وہ قلم و قرطا س کو تھام کر اپنے حصے کی شمع جلا کر اپنا حق ادا نہ کر دے !!!
آخر میں آسی صاحب کی ایک انتہائی خوبصورت غزل پیش کر کے اجازت چاہوں گی 
  پاﺅں جمتے ہیں نہ دستار سنبھالی جائے 
  اب تو بس عزت سادات بچا لی جائے 
  حبس ایسا ہے کہ دم گھٹتا نظر آتا ہے
  کر کے تدبیر کوئی ،تازہ ہوا لی جائے
  کچھ تو اسباب ہیں اس بے سروسامانی کے
  اپنے احباب کی تاریخ کھنگالی جائے 
  اب دعاﺅں میں بھی تاثیر نہیں ہے شاید 
  کیسے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لی جائے
  ویسے تو دکھ ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
  پھر بھی یہ عدل کی زنجیر ہلا لی جائے 
  بھوک بڑھنا ہی بغاوت کا سبب ہے آسی 
  یہ روایت میری سرکار نہ ڈالی جائے 
محترم سعید آسی صاحب بلاشبہ دنیائے ادب و صحافت کے لئے ایک گراں قدر سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انکی نیک نیت اجلی شخصیت اور قلم کومزید جولانیت بخشے۔آمین ثم آمین

ای پیپر دی نیشن