زراعت اور کسان کی داد فریاد کون سنے گا؟

نقطہ نظر    
تحریر....چوہدری ریاض مسعود 
           ch.riazmasood@gmail.com
    حکومت پاکستان کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ہماری زرعی اجناس کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں اس شعبے کی برآمدات میں 13.55فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس وقت سعودی عرب سمیت کئی ممالک پاکستان سے غذائی اجناس کی درآمد میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ اللہ کا خاص فضل و کرم ہے کہ ہمارے زرعی شعبے کی شرح نمو ہمیشہ سب سے زیادہ رہی ہے اور یہ شعبہ 25کروڑ عوام کی غذائی ضروریات بھی احسن طریقے سے پوری کر رہا ہے اگر ملک میں زراعت کے حوالے سے کوئی بحران آیا بھی ہے تو وہ ہماری انتظامی کمزوریوں اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ہی تھا۔ اس حقیقت کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ زراعت کو ہماری معیشت میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اور گزشتہ سال اس کی شرح نمو6.3فیصد رہی جبکہ معیشت میں زراعت کا حصہ تقریباً25فیصد سے زائد رہا جبکہ یہ شعبہ سب سے زیادہ یعنی 40فیصد روز گار بھی فراہم کررہا ہے۔ اس وقت ہماری برآمدات کا 60فیصد سے زیادہ حصہ براہ راست یا بلواسطہ زراعت کا ہی مرہونِ منت ہے۔ زراعت کے سب سے اہم شعبے لائیوسٹاک کا بھی ہماری GDPمیں حصہ تقریباً15فیصد کے لگ بھگ ہے اور اس کی وجہ سے ہماری حلال گوشت کی برآمدات بھی بڑھ رہی ہیں۔ اقتصادی سروے پاکستان کے مطابق اس وقت ہمارے کسانوں کے پاس 55.5ملین گائیں ، 45ملین بھینسیں ، 32.3ملین بھیڑیںاور 84.7ملین بکریاں بھی ہیں اس کے علاوہ 94.4ملین مرغیاں بھی ہیں اور پولٹری کے شعبے میں ہماری سرمایہ کاری 1056ملین روپے کی ہے اور یہ شعبہ 1.5ملین افراد روزگاربھی فراہم کررہا ہے۔ لائیوسٹاک کے دوسرے اہم شعبے مچھلی کی سالانہ پیداوار 700ہزار میٹرک ٹن سے زائد ہے یاد رہے کہ دنیا میں دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان 5ویں نمبر پرہے جبکہ جانوروں سے ہمیں تقریباً ساڑھے 63لاکھ کھالیں بھی حاصل ہو رہی ہیں جس سے ہماری چمڑا سازی صنعت بھی فروخت پا رہی ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ہماری زراعت اور لائیوسٹاک نے "کرونا،سیلابوں اور ہر قدرتی آفت میں عوام کو غذائی تحفظ فراہم کیا ہے۔ دکھ بھری حقیقت یہ ہے کہ زراعت کسی بھی حکومت کی ترجیح ہی نہیں رہی۔ اسی لیے زراعت اور کسان کے مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ہمارے دیہی علاقوں میں کسانوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ وہ 16ویں صدی جیسی زندگی گزاررہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں عوام کو تعلیم ، صحت پینے کا صاف پانی، نکاسی آب ، ذرائع آمدو رفت ، ملاوٹ سے پاک اشیائے خوردوو نو ش جیسی بنیادی سہولتیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔ ہماری زرخیز زرعی اراضی پردھڑا دھڑ رہائشی سکیمیں بننے کی وجہ سے زیرِ کاشت رقبے اور زرعی پیداوار میںبھی کمی ہو رہی ہے۔ ملک میں بیج کھاد، زرعی ادویات ، زرعی الات، ڈیزل ، پٹرول اور بجلی کے ریٹس بڑھنے کی وجہ سے کسانوں کے پیداواری اخراجات میں بے پنا ہ اضافہ ہو چکا ہے۔پاکستان کے سرکاری طور جاری ہونے والے اقتصادی سروے 2023-24کے مطابق ہمار ا 9 سے 10ملین ھیکٹر رقبہ قابلِ کاشت تو ہے لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے اس پر فصلیں کاشت نہیں ہو رہیں۔ آئی ایم ایف کے ایجنڈے ، صنعتی و تجارتی تنظیموں ، سوشل میڈیا کے پر زور مطالبے اور ہمارے "عالی دماغ انتظامی و مالیاتی ا مور کے ماہرین "کی دیرینہ خواہش پر حکومت نے معیشت کے بنیادی ستون پر کاری ضرب لگانے کے لیے یکم جنوری 2025سے زرعی ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس سے انداز اً 2300 ارب روپے کی آمدن ہوگی۔ جبکہ صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے اپنے حلیف پاکستان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے واک آو¿ٹ کے باوجود 14نومبر کو زرعی ٹیکس کا بل کثرت رائے سے منظور کر کے رولز کے تحت فوراً گورنر کی منظوری کے لیے بھیج دیا جنھوں نے ابھی تک اس بل کی منظوری نہیں دی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ زرعی ٹیکس کے نفاذسے ہماری زراعت اور کسان دونوں کو بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہم زرعی بحران کا بھی یقینا شکار ہو ں گے۔ عوام کو اس بات کو بخوبی علم ہے کہ مراعات یافتہ طبقے صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کے لیے ہر سطح پر ریلیف ہی ریلیف ہے جبکہ عام لوگوں کے لیے مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور ٹیکسوںکی بھرمار ہے۔ زراعت پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ کرنے والے دانشوروں کوعلم ہونا چاہیے کہ اب ماضی کی فلموں اور ڈراموں میں دکھائے جانے والے جاگیر دار اور وڈیرہ شاہی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تقریباً 80سے 82فیصد کسانوں کے پاس ساڑھے بارہ ایکڑ سے بھی کم زرعی اراضی ہے جبکہ تقریباً15فیصد ساڑھے 12ایکڑ سے 25 ایکڑ تک اراضی کے مالک ہیں اور25ایکڑ سے زائد اراضی کے مالک زمینداروں کی تعداد بھی 3سے 4فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق1971میں چھوٹے کاشتکار کے پاس اور اوسطً5.3ہیکٹر زمین تھی جو 2000میں کم3.1ہیکٹر اور 2010میں مزید کم ہو کر صرف 2.6ہیکٹر رہ گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ وراثتی تقسیم اور دیگر وجوہات کی بنائ پر اب زیادہ تر چھوٹے کاشتکاروں کے پاس صرف 2سے 3ایکٹر زمین رہ گئی ہے اور یہی وہ کاشتکار ہیں جو ہماری زراعت کی "ریڑھ کی ہڈی" کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس وقت بازار میں کھادبیج کھادزرعی ادویات، زرعی آلات و ٹریکٹر، ٹیوب ویل، ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اور اس سے یقینا صنعت کار ، سرمایہ کار، تاجر اور مڈل مین بھر پور منافع کما رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان چھوٹے کاشتکاروں سہولت کے لیے ملاوٹ سے پاک بیج، کھاد، زرعی ادویات، زرعی آلات، پٹرول ، ڈیزل، بجلی ، آب پاشی کے لیے پانی یہ سب سہولتیں رعائیتی نرخوں پر فراہم کرے۔ چھوٹے کسانوں کے لیے زرعی مداخل خریدنے کے لیے زرعی آسان شرائط پر بلاسود قرضے فراہم کرے۔ محکمہ زراعت کے ماہرین کو پابند کیا جائے کہ وہ بڑے بڑے زمینداروں کے ڈیروں کے چکر لگانے کی بجائے چھوٹے کاشتکار کو ان کے کھیتوں میں جاکر مدد اور فنی رہنمائی فراہم کرے۔ حکومت کے ٹیکس وصولی کے اعدادوشمار کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنے مقرر کردہ اہداف کے مطابق ٹیکس وصول نہیں ہو سکے مثلاً ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے چارہ ماہ میں 980ارب روپے کے ٹیکس اکٹھے کرنے تھے جبکہ ابھی تک صرف 778۔ ارب روپے وصول ہوئے۔یاد رہے کہ حکومت نے وفاقی بجٹ 2024-25میں ٹیکس وصول کا ہدف 2970ارب روپے رکھا تھا جس کے حصول کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کرے گی کیونکہ اگر رواں مالی سال دسمبر تک کے اہداف حاصل نہ ہو سکے تو آئی ایم ایف سے اگلی قسط ملنا مشکل ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر ہم اپنی عوام کو تختہِ مشق بنائے ہی جارہے ہیں اوغریب کسانوں کو زرعی ٹیکس کی بھٹی"میں جھونکنا آخر حکومت کی کس طرح کی حکمت عملی ہے؟ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ہر راستہ زراعت سے ہو کر ہی گزرتا ہے لیکن اگر ان کسانوں کو "زرعی ٹیکس کے شکنجے میں جھکڑ دیا گیا "تو پھر ہماری زراعت اور کسان کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔ کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی صدر سردار ظفر حسین اور سیکرٹری اطلاعات حاجی محمد رمضان بالکل درست کہا ہے کہ زرعی ٹیکس کے نفاذ سے زراعت اور کسان دونوں کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا جس سے زرعی اور غذائی بحران بھی آے گا۔ لہٰذا حکومت کو فوری طور پر زرعی ٹیکس کابل واپس لینا ہوگا۔ حکومت کو ہر حال میں اپنے کسانوں کا خیال رکھنا ہوگا جو 25کروڑ عوام کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں ان کسانوں کی محنت سے سرمایہ داروں کے کارخانے چلتے ہیں اور وہ زرعی مصنوعات کو مقامی منڈیوں میں فروخت کر کے اور انہیں برآمد کر کے اپنی تجوریا ں بھرتے ہیں لیکن کسان کو اتنی محنت کے بعد کیا ملتا ہے؟ بھوک، ننگ، افلاس اور بیماریاں ، تھانے کچہریوں کے دھکے، پٹواریوں اور سیاست دانوں کے نخرے، حکومت صنعتکاروں ، سرمایہ کاروں اور تاجروں کو ریلیف دینے اوراپنے ٹیکس کے اہداف کو پورا نہ کرنے پر اور آئی ایم ایف کے حکم نامے پر کسانوں کو رگڑا لگانے کی پا لیسی پر عمل پیرا ہے۔ہمارے سیاست دانوں کو بھی دیہی علاقوں کی عوام صرف انتخابات "کے موقعہ پر ہی یاد آتے ہیں اور وہ ان کے ووٹ لے کر پھر غائب ہو جاتے ہیں اور یہ کسان لوگ پھر مصائب و مشکلات کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ کپاس پیدا کرنے والا پاکستان ، اب اپنی ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے دو سے تین ارب ڈالر کی کپاس درآ مد کر رہا ہے اس کی اصل وجہ ہماری ناقص پالیسیا ں ہیں جس کی وجہ سے کپاس کے پیداواری علاقے میں گنے ، مکئی اور دھان کی وسیع رقبے پر کاشت ہو رہی ہے۔آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے طاقتور سیاست دانوں نے اپنی شوگر ملیں چلانے کے لیے کاٹن زون کو روند ھ کر رکھ دیا ہے اور وہا ں وسیع پیمانے پر گنا کاشت کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے جس کی وجہ سے کپاس کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس سے ہزاروں جیننگ فیکٹریاں ،آئل ملز اورٹیکسٹائل ملوںکا پیہیہ جام ہو چکا ہے اور ہزاروں مزدور بے روزگار بھی ہو چکے ہیں۔ حکومت کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ زراعت اور کسانوں کے مسائل کو حل کرنے اور اس اہم شعبے کی ترقی کے لیے عملی اقدامات کرے۔ زراعت کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ زیادہ پیدا وار دینے والے تصدیق شدہ بیج کی عدم دستیابی، آبپاشی کے لیے پانی کی کمی ، کھادوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ، کھاد اور زرعی ادویات میں ملاوٹ ، مہنگے زرعی الات ، ڈیزل پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں آئے دن ہونے والا اضافہ ، زرعی قرضوں پر بھاری سود، فنی رہنمائی کا فقدان اور کسانوں کو ان کی پیداوار کا پورا معاوضہ نہ ملنا ہے۔ حکومت کو فوری طور پر ان مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر حکومت زراعت اور ا س کے دیگر شعبوں کی ترقی کی طرف خصوصی توجہ دے تو زرعی خود کفالت کا ہمارا دیرینہ خواب حقیقت بن سکتا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے مطالبے پر زرعی ٹیکس لگا کر اپنی زرعی معیشت کو خود تبا ہ نہ کرے۔ اللہ نہ کرے کہ ملک میں کوئی غذائی بحران پید ا ہو ، ایسی صورت میں آئی ایم ایف ہماری بالکل مدد نہیں کرے گی۔ سب کچھ ہمیں خود ہی بھگتنا پڑے گا۔کیونکہ "یہ سب کچھ کیا دھرا ہمارا اپنا ہی تو ہے "۔

ای پیپر دی نیشن