مذاکرات کے پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے، بیل منڈھے نہ چڑھ سکی
شاعر نے ہمارے حالات کو دیکھتے ہوئے جو کہا تھا، آج تک اس میں ذرا بھر بھی تبدیلی نہیں آئی۔ لگتا ہے تمام حالات اور معاملات جوں کے توں ہیں۔ بقول منیر نیازی:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
کہیں سے اگر اصلاح کی کوئی کوشش ہوتی ہے تو اسے سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جب چار سو تاریکی ہی تاریکی پھیلی ہو یا پھیلائی جا رہی ہو تو روشنی کی طلب زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ لوگ صبح درخشاں کا اور شدت سے انتظار کرنے لگتے ہیں۔ ہماری بے نیازیوں کہہ لیں یا انا پرستی کے سبب سب سے زیادہ ہماری سیاست متاثر ہو رہی ہے جس کا اثر زندگی کے تمام شعبوں پر پڑ رہا ہے اور ترقی و خوشحالی کی راہ کا سفر طویل تر ہو رہا ہے۔ اس وقت سیاسی میدان میں وہ ہاہاکار مچی ہے کہ عوام کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ میدان میں کیا ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے سیاسی اتحادی گرینڈ الائنس کے نام سے، مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے اتحادی حکمران اتحاد کے نام سے جبکہ اس وقت جے یو آئی (ف) والے مدارس بلز کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراءہیں۔ پینترے بدل بدل کر ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔ ان حالات میں تو تعمیر و ترقی کا رستہ کھوٹا تو ہو سکتا ہے، طے نہیں ہو سکتا مگر کسی کو اس کی پروا نہیں۔ سیاست دان اپنی ناک کے آگے دیکھنے کو تیار نہیں، اندرون ملک حالات کے علاوہ ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو پتا چلے جنگ کے خطرات ہمارے پڑوس تک پہنچ چکے ہیں جبکہ ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغان حکومت الگ ہمارے درپے ہیں۔ جب گھر میں لڑائی ہو رہی ہو تو باہر والوں کو گھر میں داخل ہونے، لوٹ مار کر نے آگ لگانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خدا خدا کرکے اپوزیشن اور حکومت میں مذاکرات کی نرم و لطیف باد صبا چلی تھی مگر شعلہ بیانی نے اسے بادصرصر میں بدل ڈالا اور مفاہمت کا چمن آباد ہونے سے پہلے ہی برباد ہو گیا۔ خدا جانے یہ سیاسی اختلافات کی یہ جنگ کیا رنگ لائے گی۔
ڈائریکٹر جنرل نادرا غیر ملکی ڈگری جعلی ثابت ہونے پر برطرف
کیا کیا اور کیسے کیسے جامع کمالات لوگ ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔ ناصرف پائے جاتے ہیں بلکہ خوب پھلتے اور پھولتے بھی ہیں۔ جہاں ہاتھ ڈالیں، بڑے سے بڑا سکینڈل سامنے آتا ہے۔ لگتا ہے نظام کی دیوار میں ہر اینٹ کرپشن کے مسالے سے جڑی ہوئی ہے، یعنی دیوار ہی کرپٹ نظام سے قائم ہے۔ چھوٹے پیمانے پر جو بھرتی ہوتی ہے اس میں تو چلیں مان لیتے ہیں رشوت، سفارش چلتی ہے مگر یہ جو بڑی بڑی پوسٹوں پر کھیل کھیلا جا رہا ہے، یہ تو ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ غیرملکی ڈگریوں کا رعب ڈال کر بڑے پیمانے پر اعلیٰ سفارش اور بھاری نذرانے کے بعد ہی اتنی اعلیٰ پوسٹ حاصل ہوتی ہے۔ ڈی جی نادرا کوئی عام ہوٹل یا ریسٹورنٹ کا منیجر نہیں ہوتا، ملک کے ایک اہم اورحساس ترین ادارے کا سربراہ اگر جعلی غیرملکی ڈگری رکھنے کا مجرم پایا گیا ہے تو اس کی بھرتی کا عمل بھی شفاف نہیں ہو سکتا۔ کس نے اس کی بھرتی میں اپنا حصہ وصول کیا، وہ بھی دیکھا جائے۔ بقول فیض احمد فیض:
لاو تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِمحضر لگی ہوئی
اور باقی غیرملکی ڈگریوں پر اعلیٰ ملازمت کرنے والوں کی ٹوکریاں بھی کھنگالی جائیں تاکہ پتا چلے کس کس نے باسی مچھلیاں نیچے دبا کر رکھی ہیں۔ اب ان بدبودار ٹوکریوں سے بھی جان چھڑائی جائے ورنہ پہلے سے تباہ حال نظام سلطنت میں مزید خرابی پیدا ہوگی جو لوگ جعلی ڈگریوں پر پکڑے جائیں ان کو بھرتی کرنے والے سفارشیوں کو بھی قانون کی چکی میں رگڑا دیا جائے اور موصوف سے ساری حاصل کردہ تنخواہیں اور مراعاتوں سمیت اخراجات جبراً وصول کرکے بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔ دھوکا دینے پر سزا بھی کڑی ہو۔ کار سلطنت چلانے والے ہی اگر دھوکے باز ہوں گے تو نظام کیا خاک درست ہوگا۔
ٹائم میگزین نے دوسری مرتبہ ٹرمپ کو پرسن آف دی ایئر قرار دیدیا
ویسے تو اوپر والے نے ہر چیز بہت اچھی بنائی ہے، کسی کی قسمت اچھی ہے تو کسی کی شکل صورت، کوئی بادشاہ ہے اور کوئی فقیر۔ کوئی مست الست ہے تو کوئی بدمست۔ اب امریکی صدر ٹرمپ کو ہی دیکھ لیں، الزامات کی بھرمار، اکھڑ مزاجی کے ساتھ رنگین مزاجی میں بھی نامور ہیں، عمررسیدہ ہونے کے باوجود ماتھے پر سفید بالوں کی لٹ لہراتے کھلنڈرا نوجوان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ بیگم ان کی ان سے زیادہ قیامت ڈھاتی نظر آتی ہیں مگر شوہر پر نظر بھی رکھتی ہیں۔ بچے جوان ہیں، عدالتوں سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود ایک مرتبہ پھر تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ امریکی عوام نے انھیں اپنی قیادت کے لیے چن لیا ہے۔ یہ شاید ’جیسی روح ویسے فرشتے‘ والی بات ہے۔ امریکی جریدہ ٹائم نے انھیں ایک بار پھر اپنے سرورق کی لیڈ سٹوری بناتے ہوئے ان کی خوبصورت تصویر کے ساتھ انھیں سال کی بہترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اب ان کی سیاست کے ناقد اگر بے شمار ہیں تو ان کے چاہنے والے بھی لگتاہے بہت ہیں۔ جبھی تو جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر وہ ایک بار پھر وائٹ ہاوس کے مکین بن رہے ہیں۔ ان کی شخصیت تو امریکی معاشرے وہاں کے مزاج اور امریکیوں کے دل و دماغ کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں والی بات، ان پر فٹ آتی ہے۔ وہ امریکی غرور انتقام، نفرت، تکبر، بد مستی کی مکمل تصویر ہیں۔ کوئی کچھ کہہ کر تو دکھائے پھر بچ کر کہاں جاتا ہے۔ دنیا چاہے کچھ بھی کہے ٹائم میگزین کی کہانی اپنی جگہ۔یوں ٹرمپ ایک بار پھر سال کی بہترین شخصیت قرار پائے۔
٭....٭....٭
کراچی میں سٹریٹ کرائم بے قابو، مزاحمت پر روزانہ کئی شہری ہلاک
سڑکوں پر ڈکیتی اور لوٹ مار، چھینا جھپٹی اور مزاحمت پر ڈاکووں‘ چوروں کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کا قتل عام جی ہاں قتل عام بہت خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ ایک آدھ واردات میں کبھی کبھار ایک بے گناہ مارا جائے تو اسے قتل کہا جا سکتا ہے۔ یوں آئے روز درجنوں لوٹ مار کی وارداتیں اور روزانہ تین چار بے گناہوں کا قتل قتل عام ہی کہلائے گا۔ اڑھائی کروڑ آبادی والے اس شہر میں پولیس، رینجرز کے ہوتے ہوئے بھی یہ وارداتیں قابو میں نہیں آرہیں۔ ایک آدھ جگہ دلیر شہریوں نے ہمت دکھاتے ہوئے ان موٹر سائیکل سوار ڈاکووں کو گاڑی تلے رگیدا بھی، ٹکر مار کر گرایا بھی۔ جمع ہو کر حملہ کرکے پکڑا بھی مگر ان اب لگتا ہے کہیں فلموں اور ڈراموں میں دکھائے سین کی طرح حقیقت میں نہ بدلنے لگے۔ اجنبی بن کر واردات ہوتی دیکھ کر ادھر ادھر سے سر جھکا کر نکلنے کی بجائے اگر ذرا ہمت دکھاتے ہوئے شہری اگر کسی دوسرے بے گناہ شہری کو مرنے اور لٹنے سے بچا سکتے ہیں تو بچانے کی کوشش ضرور کریں۔ ان کو کیفرکردار تک پہنچا نے میں مدد کرے کیونکہ یہ بزدل ڈاکو اتنے شہریوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھ سکتے۔ ڈاکووں اور چوروں کے ہاتھ توڑنے کے لیے اتنی ہمت تو دکھانا ہوگی۔ قانون کی اپنی مجبوریاں اور حدود ہیں مگر بروقت جان و مال کی حفاظت ہمارا اپنا بھی فرض ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے پولیس کے آنے کا انتظار کرتے کرتے لٹنے اور مرنے سے بہتر ہے ہم خود بھی اپنی اور دوسروں کی حفاظت کی کوشش کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ اسے انارکی پھیلانے کی بات کہہ کر مسترد نہیں کر سکتے۔