اللہ تعالیٰ کسی انسان کے صرف ظاہری عمل کو کر دیکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ بندے کی قلبی حالت کے لحاظ سے فیصلہ کرتا ہے ۔یعنی کوئی بھی کام سر انجام دینے سے پہلے اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنا تھا یا پھر مخلوق کو راضی کرنا ۔
جو بندہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا طالب ہو‘ اس کا رخ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رہتا ہے ۔وہ ہر کام میں اللہ کی پسند اور نا پسند کا دھیان رکھتا ہے ۔ اور ہمیشہ حق کے لیے بولتا ہے اور وہی بولتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو ۔ اور صرف اسی راستے پر چلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی طرف لے کر جاتا ہو۔ بیشک انسان اس کے مخالف ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔اس کا اٹھنا ، بیٹھنا ، کھانا پینا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے گرد گھوم رہا ہوتاہے ۔ لیکن جو شخص دنیا کا طالب ہو تا ہے وہ ہمیشہ لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا مرکز اللہ تعالیٰ کی بجائے بندے ہوتے ہیں اور ایسا شخص لوگوں کو خوش کر نے کے لیے صحیح غلط کی بھی تمیز نہیں کرتا وہ ہر ایسا کام کرے گا جس سے وہ لوگوں میں مقبول ہو جائے۔
جو بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں بہت زیادہ حساس ہوتا ہے وہ ہر طرح کے دوسرے پہلوﺅں کو نظر انداز کر سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی والے پہلو کو نظر انداز نہیں کر سکتا لیکن جو بندہ جس کامطلوب صرف لوگوں کو خوش کرنا ہی ہو وہ انسانوں کے بارے میں حساس ہوتا ہے اور ہر لحاظ سے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
جس بندے کا مطلوب اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو گی اس کا ٹھکانہ جنت ہو گا اور جس کا مطلوب دنیا اور لوگوں کو خوش کرنا ہو گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔
خدا اور بندے کے درمیان جو نسبت ہے وہ دینے والے اور لینے والے کے لحاظ سے ہے ۔ بندے کے پاس اللہ تعالیٰ کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ایک ہی چیز ہے جو بندہ اپنے رب کے حضور پیش کر سکتا ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کو ا س کی حیثیت واقعی سے دریافت کرلے۔ اسی کو پا لینے کا نام معرفت ہے ۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں انتہائی گہرائی میں غورو فکر کرتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بندے کو حقیقت خدا وندی کا انکشاف ہوتا ہے اور وہ کامل یقین کے درجے تک اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے ۔خدا کی محبت میں جینے والے لوگ خدا کے مطلوب بندے ہیں اور انہیں آخرت میں ابدی جنت میں داخل کا جائے گا۔