وفاقی حکومت نے مزید 6 انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ بجلی خریدنے کے معاہدے ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ 2396 میگاواٹ کے معاہدے ختم کرنے سے مزید 300 ارب روپے کی بچت کا امکان ہے۔ اسی طرح کیپکو پاور پراجیکٹ کے 1638 اور لبرٹی پاور کے 200 میگاواٹ کے معاہدے ختم کیے جائیں گے۔ اٹک پاور کے ساتھ 165، کوہ نور انرجی کے ساتھ 131 میگاواٹ اور ٹپال انرجی کے ساتھ 126 میگاواٹ کی بجلی کی خرید کے معاہدے بھی منسوخ کیے جائیں گے۔ معاہدے ختم کرنے سے بجلی ٹیرف میں کمی ہوگی۔ دوسری جانب، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں کو مزید کم کرنے اور مستقبل کے بجلی کے پیداواری منصوبوں کے حوالے سے لائحہ پر عمل درآمد کو تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مستقبل میں کم لاگت بجلی منصوبوں اور مقامی وسائل کو ترجیح دی جائے۔ پن بجلی کے منصوبے کم لاگت بجلی کے ایسے ذرائع ہیں جن سے صارف کو ماحول دوست اور سستی بجلی فراہم ہوگی، بجلی کی موجودہ استعداد کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے کہ ملک میں شمسی توانائی کی وسیع استعداد موجود ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئی پی پیز سے خریدی گئی مہنگی نہ صرف عام آدمی بلکہ چھوٹے بڑے صنعت کاروں کی دسترس سے بھی باہر ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سے کئی چھوٹی صنعتیں اور کارخانے ختم ہو چکے ہیں جبکہ بڑے صنعت کار وں کے لیے پیداواری لاگت ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ حکومت کا 6 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے مگر جب تک تمام آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم نہیں کیے جاتے، نہ ملک سے ان کی اجارہ داری ختم کی جاسکتی ہے اور نہ عوام کو سستی بجلی دستیاب ہو سکتی ہے۔ دو روز قبل 8 نئی آئی پی پیز کے ساتھ سیٹلمنٹ معاہدے کیے گئے، یہ معاہدے کن بنیاوں پر کیے گئے، ان میں عوامی مشکلات کو مدنظر رکھا گیا ہے یا نہیں، یہ تفصیلات عوام کے سامنے نہیں لائی گئیں جبکہ حکومتی دعویٰ یہی ہے کہ اس سے قومی خزانے کو فائدہ ہوگا اور عوام کو سستی بجلی فراہم کی جاسکے گی۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان کی ترقی کے ضامن کالاباغ ڈیم منصوبے پر سیاست ترک کرکے اس پر تمام صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے اور کسی بھی بیرونی دباﺅ اور سازش کو خاطر میں لائے بغیر اس کی تعمیر کی راہ ہموار کی جائے۔