پاکستان نے بین الاقوامی برادری کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں کام کرنے والا ’سب سے بڑا دہشت گرد گروپ‘ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) القاعدہ کی ایک شاخ بن کر علاقائی اور عالمی دہشت گردی کے ایجنڈے کے ساتھ ابھر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب سفیر عثمان جدون نے کہا کہ افغانستان کے اندر اور وہاں سے دہشت گردی ملک، خطے اور دنیا کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں باقاعدہ یہ کہا گیا کہ افغانستان میں کئی دہشت گرد گروپ بروئے عمل ہیں، ان میں سب سے بڑا اور خطرناک گروپ تحریک طالبان ہے جسے افغان عبوری حکومت کی تائید حاصل ہے۔ حکومت کی پشت پناہی پر یہ گروپ پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے۔ آج افغانستان میں طالبان اگر اقتدار میں ہیں تو اس میں پاکستان کا اولین کردار ہے۔ امریکا جاتے ہوئے ایسی عبوری حکومت بنانا چاہتا تھا جس میں ساری پارٹیوں کی نمائندگی ہو۔ پاکستان نے اس معاملے میں پڑکر طالبان کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ طالبان اقتدار میں آئے تو بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ ٹی ٹی پی پہلے ہی بھارتی مقاصد کے لیے کام کر رہی تھی۔ اب اسے طالبان حکومت کی تائید بھی حاصل ہو گئی۔ طالبان نے کئی سال تک ایک برا وقت دیکھا لیکن اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اب افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کی اس کی طرف سے پشت پناہی کیے جانے پر اسے عالمی سطح پر مسائل کا سامنا ہے۔ اسی لیے دنیا اسے تسلیم بھی نہیں کر رہی۔ افغان حکومت جب تک ٹی ٹی پی اور القاعدہ جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی سے باز نہیں آئے گی اس وقت تک نہ تو افغانستان مستحکم ہو سکتا ہے اور نہ ہی دنیا ان کی حکومت کو تسلیم کرے گی۔ گزشتہ دنوں طالبان حکومت کے ایک وزیر بھی دہشت گردی کی زد میں آگئے تھے۔ اس سے انھیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ وہ آگ جو دوسروں کے لیے اس حکومت کی طرف سے بھڑکائی گئی ہے اس کی زد میں یہ خود بھی آچکے ہیں۔ بہتر ہے کہ یہ اپنے ملک کے استحکام اور علاقائی امن کے لیے دہشت گردوں کی پشت پناہی سے ہاتھ اٹھا کر بین الاقوامی برادری کا پر امن حصہ بننے کی کوشش کریں۔