1964ءکے دوران جب میں لاہور میں روزنامہ ”نوائے وقت“ کے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کررہا تھا، ایک روز جناب اے ڈی اظہر (مرحوم) نے جو اس وقت ”نوائے وقت“ کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر تھے، مجھے لاہور سے ملتان تبادلہ کے احکامات دے دئیے، میں ملتان پہنچا تو جناب مقبول احمد نے کُھلے دل سے میرا خیر مقدم کیا اور اپنی عادت و روایت کے برعکس انہوں نے دفتر ”نوائے وقت“ کے قریب واقع ایک جدید ہوٹل میں کھانے کی پُر تکلف دعوت کا اہتمام کیا، یوں انہوں نے اپنے ایک شاگرد کو غیر معمولی عزت کا مستحق جانا اور شاگردی رفاقت میں تبدیل ہوگئی۔
جس رات امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی کو قتل کیا گیا مقبول صاحب اخبار کی کاپی مکمل کرنے کے بعد گھر جا چکے تھے، میں چونکہ دفتر کے ہی ایک کمرے میں مقیم تھا اس لئے جب لاہور ہیڈ آفس سے فون پر اس سانحہ کی خبر دی گئی تو میں نے ملتان میں اپنی آمد کے چند روز بعد ہی، ہر ممکن تدبیر اختیار کرکے اخبار کی کاپی ازسرِ نو مرتب کی اور نئی کاپی میں کینیڈی کے قتل کی خبر کو شہہ سرخی کی حیثیت دی۔ جب مقبول صاحب نے صبح کو اپنے گھر میں ”امروز“ دیکھا (ان دنوں ملتان سے ”امروز“ اور ”نوائے وقت“ شائع ہوتے تھے، جبکہ ”کوہستان“ صوبائی گورنر کے حکم سے دو ماہ کے لئے بندتھا) کینیڈی کے قتل کی خبر دیکھ اور پڑھ کر وہ سخت پریشان ہوئے کیونکہ جو کاپی انہوں نے مکمل کی تھی اس میں یہ خبر سرے سے موجود نہ تھی، اخباری مسابقت کے لحاظ سے یہ ایک بڑی نااہلی (اگرچہ قطعی نادانستہ) تھی۔ اس پریشانی نے انہیں پیچش میں مبتلا کردیا لیکن چند گھنٹوں بعد جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ”نوائے وقت“ میں بھی یہ خبر شہہ سرخی بنی ہے تو فوراً دفتر پہنچے اور جب انہیںپتہ چلا کہ یہ کارنامہ میرے ہاتھوں انجام پایا ہے تو انہوں نے اسی شام میرے اعزاز میں ایک خصوصی دعوت کا اہتمام کیا اور مجھے تعریف و تحسین کے انمول جملوں سے نوازا۔
ان واقعات کے تذکرہ کا مقصد خودستائی نہیں بلکہ ایک فرض شناس ایڈیٹر کی حیثیت سے مقبول صاحب کے کردار کو واضح کرنا ہے۔ چنانچہ پہلے واقعہ سے ایک ایڈیٹر کے ہاتھوں ایک نامہ نگار کی تربیت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے دوسرے واقعہ سے ایک ایڈیٹر کی حیثیت میں ان کے ذمہ دارانہ طرزِ عمل اور اخبار کے مالکوں کی وقتی مصلحتوں کے خلاف احتجاج کا اشارہ ملتا ہے اور تیسرے واقعہ سے ان کے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اپنے نائب کی حوصلہ افزائی اجاگر ہوتی ہے۔
مقبول صاحب ”نوائے وقت“ ملتان میں ڈاک ایڈیشن کی کاپی بھیجنے کے بعد لوکل ایڈیشن کی تیاری کا کام شروع کرنے کے وقفہ میں صحافت سے ہٹ کر کلاسیکی شعر و ادب کی باتیں کرتے تھے یا اپنے قیام افغانستان کے دلچسپ واقعات و تجربات سنایا کرتے تھے۔ وہ شعر کے نہایت اعلیٰ ذوق کے مالک تھے اور انہیں اساتذہ کے بلا مبالغہ ہزاروں فارسی اور اردو اشعار ازبر تھے۔ مختلف موضوعات پر وہ شعر کا نہایت بر محل استعمال بڑی خوبصورتی سے کرتے تھے۔
مقبول صاحب نے اپنی صحافت کی ابتدا کابل سے کی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ تحریکِ خلافت میں ہجرت کرکے امرتسر سے افغانستان پہنچے تھے۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ پشاور سے کابل کا سفر خچروں پر کیا تھا۔ یہ سفر جس کے دوران ان کے جسم کے مختلف حصوںسے خون بہنے لگاتھا نہایت تکلیف دہ اور پریشان کن تھا۔ کابل میں انہوں نے ایک معلم کے طور پر ملازمت شروع کی اس وقت افغانستان کا سرکاری روزنامہ ”اصلاح“ (جو فارسی زبان میں شائع ہوتاتھا) وزارت تعلیم کے ماتحت تھا، اس طرح مقبول صاحب نے تدریس کے پیشہ سے صحافت کی طرف ”ہجرت“ کی، وہ کئی سال تک حکومت افغانستان کے سرکاری روزنامہ ”اصلاح“ کے چیف ایڈیٹر رہے اور جب وطن واپس آئے تو انہوں نے ”اصلاح“ سے ملنے والے معاوضہ کے مقابلہ میں بہت کم تنخواہ پر روزنامہ ”انقلاب“ میں بطور سب ایڈیٹر ملازمت اختیار کی۔ مقبول صاحب اس دور کی یادیں بہت مزے لے لے کر بیان کیا کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ بات بات پر استعفیٰ پیش کرنے کے ”عادی“ ہوگئے تھے، لیکن وزیر تعلیم ان کا بہت مداح تھا اور وہ سمجھا بجھاکر مقبول صاحب کو استعفیٰ واپس لے لینے پر آمادہ کرلیتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب کسی اور صاحب نے افغانستان کے وزیر تعلیم کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو مقبول صاحب نے ”حسب عادت“ آﺅ دیکھا نہ تاﺅ استعفیٰ داغ دیا اس مرتبہ ان کا مداح دوست وزیرتعلیم نہیں تھا جو انہیں سمجھاتا چنانچہ استعفیٰ منظور کرلیا گیا اور مقبول صاحب وطن واپس آگئے۔
کچھ عرصہ بعد جب افغانستان میں پس انداز کی گئی رقم ختم ہوگئی تو انہوں نے لاہور کے اُردو اخبارات میں قسمت آزمائی کی ٹھانی، مقبول صاحب بتاتے تھے کہ جب وہ مولانا عبدالمجید سالک کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ”انقلاب“ میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی تو انہیں ایک اشتہار ترجمہ کے لئے دیا گیا، مقبول صاحب نے فٹافٹ اشتہار کا ترجمہ کردیا مگر اس ترجمہ کو پڑھ کر مولانا سالک نے سر تھام لیا کہ اس ترجمہ میں اردو کا ایک لفظ بھی نہیں تھا اور مقبول صاحب نے اشتہار کو انگریزی سے براہ راست فارسی میں ترجمہ کر ڈالا تھا.... مقبول صاحب کو اب فارسی سے اُردو کی طرف سفر کرنا تھا، انہوں نے یہ سفر بھی کیا اور ”اصلاح“ کے مقابلہ میں بہت کم تنخواہ پر کام کرنا قبول کرلیا۔
مقبول صاحب، آل انڈیا ریڈیو میں اپنی ملازمت کی ایک کوشش کا ذکر بھی مزے لے لے کر کرتے تھے۔ انہوں نے کسی اخبار میں یہ اشتہار پڑھا کہ آل انڈیا ریڈیو کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو خبروں کا انگریزی اور اُردو سے فارسی میں ترجمہ کرسکے اور پھر ان خبروں کو نشر بھی کرسکے انہوں نے یہ اشتہار مولانا سالک کو دکھایا جنہوں نے یہ اشتہار دیکھ کر کہا، ”مقبول صاحب یہ جگہ تو صرف اور صرف آپ کی منتظر ہے“۔
مولانا سالک نے ایک خط جناب پطرس بخاری کے نام دے دیا اور مقبول صاحب یہ خط لے کر دہلی پہنچ گئے۔ آل انڈیا ریڈیو میں انہیں بہت سی خبریں ترجمہ کے لئے دی گئیں جن کاترجمہ انہوں نے بڑی خوبی اورآسانی سے بہت کم وقت میں کر ڈالا بعد ازاں انہیں یہ خبریں نشر کرنے کے لئے کہا گیا۔ انہوں نے یہ خبریں ریڈیو کے سامعین کے لئے پڑھ تو ڈالیں لیکن پڑھنے کے دوران ہی اُنہیں اندازہ ہوگیا کہ نشریات ان کے بس کا روگ نہیں پھر جب ان کی آواز کی ریکارڈنگ خود انہیں سُنائی گئی تو ان کی پریشانی قابلِ دیدتھی۔ ندامت سے ان کا بُرا حال تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس سے پہلے کبھی اتنی کمزور اور مریل آواز کسی کی نہیں سُنی تھی۔ پطرس بخاری نے مولانا سالک کے نام ایک رقعہ لکھ کر انہیں دوبارہ دفتر ”انقلاب“ بھیج دیا کہ یہ صحافت کے آدمی ہیں، نشریات کے نہیں۔ بہرحال مقبول صاحب نشریات کے قابل بے شک نہ ہوئے مگر وہ ریڈیو مانیٹرنگ کے ماہر ضرور بن گئے تھے، اس ضمن میں ان کی مہارت و استعداد کا یہ عالم تھا کہ وہ بجٹ کی لمبی لمبی رقوم بھی ریڈیو سے بالکل صحیح صحیح نوٹ کرلیتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب خبروں کے لئے اخبارات کے وسائل انتہائی محدودتھے، دفاتر میں نہ ٹیلی پرنٹر ہوتے تھے اور نہ پریس ریلیزوں کی بھر مار، اس دور میں صرف ریڈیو خبروں اور انگریزی خبروں کے ترجموں سے اخبار کا پیٹ بھرنا دِل گُردے کی بات تھی۔
مقبول صاحب کو یہ منفرد شرف بھی حاصل تھا کہ قیام پاکستان سے قبل سب سے پہلے لاہور میں جہاں ٹیلی پرنٹر لگا وہ روزنامہ ”احسان“ کا دفتر تھا جہاں مقبول صاحب نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ اس ٹیلی پرنٹر کی تنصیب کا افتتاح قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مبارک ہاتھوں سے ہوا۔ ریڈیو مانیٹرنگ کی مہارت مقبول صاحب میں آخری عمر میں بھی بدستور موجود تھی اور وہ ”بی بی سی“ اور ”وائس آف امریکہ“ سے خبریں سُن کر انہیں لاہور کے مختلف روزانہ اخبارات کو بھیجتے تھے اور فقط یہی شُغل ان کی آمدنی کا ایک وسیلہ تھا....
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
جب22 اگست 1980 ءکو روزنامہ وفاق سے میری بائیس سالہ شراکت و رفاقت ختم ہوئی تو مقبول صاحب مجھے ساتھ لے کر مصطفی صادق صاحب کے پاس شاہ دین بلڈنگ میں وفاق کے دفتر (جہاں سالہا سال نوائے وقت کادفتر رہاتھا) گئے اور مصالحت و مفاہمت کی کوشش کی جو ناکام رہی، اس اعتبار سے بھی میں مقبول صاحب کو اپنے محسن کی حیثیت میں کبھی بھول نہیں پاﺅں گا۔ (ختم شد)