عالمِ اسلام کے لئے لمحہ ءفکریہ 


شام میں باغیوں کے غلبے کے بعد گریٹر اسرائیل کی تکمیل کا دوسرا قدم بھی کامیاب ہوگیا ، جیسے ہی باغیوں نے دمشق کا کنٹرول حاصل کیا اسرائیلی فوج باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شام کے شہر قنطیرہ میں داخل ہو گئی اور اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں میں اپنی فوج کی نفری بھی بڑھا دی، صہیونی غاصب حکومت نے شام کی دفاعی تنصیبات اورایئر بیس کو نشانہ بنا کر شام کی دفاعی لائن کو تہس نہس کر دیا ، اسرائیلی فضائیہ نے شام پر 500 سے زائد فضائی حملے کر کے شام کی 80 فیصد سے زائد عسکری حلاحیت کو تباہ کردیا ، غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور فلسطین پر وحشیانہ بمباری کر کے صہیونی غاصبوں کا یہ پہلا قدم تھا جب کہ گریٹر اسرائیل کی تکمیل کا تیسرا اور چوتھا نشانہ تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے ۔ پاکستان میں بڑی تیزی سے صہیونی ایجنڈے کی تکمیل شر پسند عناصر کی مدد سے جاری ہے، صہیونی حکومت با ضابطہ منصوبہ بندی کے تحت شام اور لبنان سے فارغ ہونے کے بعد ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی بھر پور تیاریاں کر رہاہے ۔ 
 گریٹر اسرائیل کی منصوبہ بندی 1890 ءکی دھائی میں منظر عام پر آگئی تھی جب فرانس میں روس کی خفیہ پولیس کے ایک اہلکار نے یہودی رہبران کے خفیہ اجلاسوں کے بارے میں انکشافات پر مبنی پروٹوکولز نامی دستاویز تیار کی، ان دستاویزات کو عالمی یہودی لیڈروں کے ایک اجلاس کے منٹس کی تفصیلات کو منظر عام پر لایا گیا جس میں روسی اہلکارنے انکشاف کیا کہ ”یہودیوں نے اس اجلاس میںپوری دنیا پر قابض ہونے کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دی ہے ، اور یہ تاثر دیا گیا کہ یہودی خفیہ تنظیموں اور ایجنسی کے ذریعے سیاسی جماعتوں، معیشت ، اخبارات اور عوامی رائے کو کنٹرول کیا جائے گا ، جسے یہودی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کریں گے ، پروٹو کولز کی یہ دستاویز دنیا کے کئی ممالک میں شائع ہوئی ، حتیٰ کہ متحدہ امریکہ میں بھی شائع ہوئیں ۔
پروٹوکولز آف دی ایلڈرز آف دا زائیون نامی دستاویزات کے حصوں کو 1903ءمیںروسی اخبار زنامیہ ( دا بینز ) میں سلسلہ وار شائع کیا گیا ،جس کا درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہوا، مجوزہ پروٹوکولز میں دنیا پر حکمرانی کرنے کے غرض سے یہودیوں کے خفیہ منصوبوں کی تفصیل کا بیان دنیا کے سامنے لایا گیا ،جس کی رو سے دنیا پر حکمرانی کا مقصد معیشت کو چالاکی سے اپنے ماتحت کرنا ذرائع ابلاغ پرکنٹرول حاصل کرنے اور مذاہب کے درمیان تنازعات پیدا کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل ممکن بنانا ہے ۔ 
16 ، ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کو جب فتح کیا تو عیسائیوں نے ایک معاہدے کے تحت القدس مسلمانوں کے حوالے کیا ،کہ ” مسلمان اس سرزمین پر یہودیوں کو بسنے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی یہاں یہودی زمینیں خرید سکیں گے ، اس معاہدے کو معاہدہ ” عمریہ“ عربی میں ” شروط عمریہ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، اس معاہدے پر ابوعبید ہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے دستخط کئے تھے ، مسلمانوں نے شروط عمریہ کی پاسداری ساڑھے تیرہ سو سال تک پوری ذمہ داری سے کی ۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوئی توفلسطین کا علاقہ برطانیہ کے زیر کنٹرول آ گیا ، سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید ثانی کی معزولی کے بعد ترک حکمرانوں نے یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے کی اجازت دی ، اس کے بعد فلسطین کی پوری سرزمین کے حصے بکھرے کر دیئے گئے فلسطین کے کئی ٹکڑے ہوئے ایک چھوٹا سا حصہ کاٹ کر یہودیوں کو دے دیا گیا حالانکہ وہاں یہودی چھ فیصد سے زیادہ آباد نہیں تھے۔
یہودیوں کے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان ہونے کے دوسرے ہی دن خطے کے پانچ عرب ممالک نے غاصب اسرائیل پر حملہ کردیا ، اسی دوران لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا، اس واقع کو ” النکبہ ‘ یعنی تباہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، 1949 ءمیں جنگ کے اختتام پر غاصب یہودیوں نے متعدد فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا ، مصر نے غزہ کو اپنے زیر کنٹرول کر لیا جبکہ اردن نے فلسطین کے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا جسے غرب اردن کہا جاتا ہے ۔
1967 ءکی جنگ میں اسرائیل کی افواج نے غرب اردن، شام کی گولان کے پہاڑی علاقے، غزہ ، مشرقی بیت المقدس ، اور مصرکا جزیرہ نما سینائی پر قبضہ کر لیا ، فلسطینی پناہ گزینوں نے غزہ اور غرب اردن کے علاوہ پڑوسی ممالک ، شام ، اردن، اور لبنان میں پناہ لی جو کہ اب بھی وہیں مقیم ہیں ، ان پناہ گزینوں کو اسرائیل اپنے وجود کے خطرے کے پیش نظر ان کے آبائی علاقوں میں واپس آنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا اور قریبی اتحادی ہے ،جو موجودہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو بڑھاوا دینے میں بہت بڑا کردارادا کر رہا ہے ، غزہ کے اس خطے پر مختلف ادوار میں مختلف سلطنتوں نے حکومت کی اور اس کی حیثیت کو تاراج بھی کیا انسانی حقوق عالمی تنظیمیں اور خود فلسطینی غزہ کو ”کھلی جیل “قرار دیتے ہیں۔
عیسائیوں نے جن شرائط اور معاہدہ عمریہ کے تحت فلسطین مسلمانوں کے حوالے کیا تھا ، اب وہی عیسائی یہودیوں کی بے پناہ حمایت اور اور اسرائیل کے مددگار بنے ہوئے ہیں ، سر دست دنیا کی دو بڑی طاقتیں فلسطین کی تباہی پر متفق ہیں اور یہ طے ہے کہ اسرائیل کے منصوبے گریٹر اسرائیل کی معاونت کرنی ہے جس کے نتیجے میں گریٹ اسرائیل اردن ،شام ،عراق ، ترکی کا جنوبی علاقہ، مصر کے زرخیز علاقے ڈیلٹا کے علاوہ صحرائے سینا اور سعودی عرب کے شمالی علاقے کے ساتھ مدینہ منورہ کو شامل کرنے کی مذموم سازش ہے ۔
ان تمام ممالک اور انکے علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کے بعد یہودی منصوبے کے تحت مسجد اقصیٰ اور القدس کی پہاڑی ( ڈوم آف دا راک ) کو گرانے کے بعد یہودی مذہب اور عقیدے کے مطابق وہاں ٹیمپل کی تعمیر مقصد ہے اسرائیل کے اس مذموم منصوبے پر یہودی اور عیسائی متفق ہو گئے ہیں ، قبل اسکے کہ یہ اسلام دشمن طاقتیں اپنے ناپاک منصوبے کو پوری طرح عملی جامہ پہنائیں ، انکے نشانے پر پاکستان اور افغانستان ہیں ، مسجد اقصیٰ اور القدس کی پہاڑی کو گرائے جانے پر عالم اسلام میں اضطراب پھیلے گا اور ممکنہ طور پراسرائیل کو افغانستان اور پاکستان کی طر ف سے رد عمل کا خدشہ ہے، لہذا یہ ان ممالک کو پہلے ہی اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں، ، اسرائیل کے پہلے ویر اعظم داویدبن گوریون نے کہا تھا کہ ” ہمیں کسی عرب ممالک سے کوئی خطرہ نہیں ، خطرہ ہے تو صرف پاکستان سے ہے ، جبکہ پاکستان اس وقت ایٹمی قوت نہیں تھا، عالم اسلام کے لئے لمحہءفکریہ ۔
 
 

ای پیپر دی نیشن